Maktaba Wahhabi

386 - 548
ہے اور کہا ہے کہ ان کاموں کو کرنے والا مشرک، بد دین، کافر اور خارج از ایمان ہے۔ لفظِ ’’ اللّٰہ ‘‘ کا معنی: لفظِ ’’اللہ‘‘ بہت ہی مبارک، مقدس، مطہر، منور اور معطر لفظ ہے۔ اس کا معنی ’’معبود‘‘ ہے۔ اسم جلالہ (اللہ) کے اس معنی پر تمام سلف وخلف اہلِ علم کا اجماع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی چیز کو پوجا، اس نے اللہ برحق اور معبود مطلق کے سوا اس چیز کو اپنا اللہ بنایا، جو بالکل باطل وفاسد اور اس دین حنیف کے مخالف و مغایر ہے، جس کے لیے آدم علیہ السلام سے رسول خاتمصلی اللہ علیہ وسلم تک سارے رسول آئے اور قرآن پاک تک ساری کتابیں نازل ہوئی ہیں، پھر سارے ہنگامے، دھوم دھام اور جہاد وقتال اسی کے لیے تو واقع ہوئے ہیں۔ اس کلمہ مسعود اور جملۂ محمود ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ میں جو معبود مراد ہے، وہ ’’اللہ أحد صمد‘‘ ہے، جو کسی کا باپ ہے نہ کسی کی اولاد، اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے، اسی اکیلے یکتا کی عبادت کرنی چاہیے تھی، مگر مشرکوں، ظالموں اور بد عہدوں نے خشکی و تری میں دوسروں کی عبادت اختیار کرلی اور غیر اللہ سے مدد مانگنے لگے، اولیا، صلحا واتقیا سے فریاد رسی کرنے لگے اور یہ نہ سمجھے کہ مصیبت وآفت کے وقت کسی کو پکارنا اور اس کا نام لینا یہی تو اللہ کے ماسوا کی عبادت ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کسی غائب اور مردہ مخلوق کو پکارنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ جسے خود معلوم نہیں ہے کہ وہ کب اٹھایا جائے گا؟ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اللہ جو معبود حقیقی، حاضر وناظر، نافع وضار، متصرف ومختار، معطی ومانع، کاشف ضرا، دافع بلایا اور قاضیِ حاجات ہے، اس کو چھوڑنا دیدہ ودانستہ مشرک ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَانَفْعًا وَاللّٰہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ [المائدۃ: ۷۶] [کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسے کو پوجتے ہو جو نہ تمھارے برے کا مالک ہے نہ بھلے کا، اور اللہ تعالیٰ ہی سنتا جانتا ہے] ﴿مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ کا معنی: اس آیت میں لفظ ﴿دُوْنِ﴾ اللہ کے سوا ہر چیز کو شامل ہے، چاہے حیوان ہو یا جمادات
Flag Counter