Maktaba Wahhabi

72 - 548
اسے سجدہ کرے گا اس نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اب بھی مت کر۔ (رواہ أبوداؤد) [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی ایک دن فوت ہو کر مٹی میں چلا جاؤں گا تو میں سجدے کے لائق کب ہوا؟ سجدہ تو صرف اس ذات با برکات کے لیے خاص ہے، جسے موت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندہ کسی زندہ کو سجدہ کرے نہ کسی مردے کو اور نہ کسی قبر کو، اگرچہ وہ پیغمبر کی قبر ہو اور نہ ہی کسی تھان کو۔ کیونکہ جو زندہ ہے، وہ ایک دن مرے گا اور جو مر گیا وہ کبھی زندہ تھا اور بشریت کی قید میں گرفتار تھا، پھر مرنے کے بعد وہ خدا نہیں بن گیا، بندہ ہی رہا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کا بن کر رہے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ آقا اپنے غلام اور لونڈی کو بندہ اور بندی نہ کہے، نیز غلام اپنے آقا کو مالک نہ کہے، کیونکہ سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ (رواہ مسلم) [2] اس سے ثابت ہوا کہ جب کوئی شخص حقیقت میں غلام ہو تو وہ بھی آپس میں ایسی گفتگو نہ کرے کہ یہ اس کا بندہ اور وہ اس کا مالک ہے، پھر جھوٹ موٹ کا بندہ بننا اور عبد النبی، بندہ علی، بندہ حضور، پرستار خاص، امرد پرست، آشنا پرست اور پیر پرست کہلانا اور ہر کسی کو خداوند خدایگاں داتا کہنا اور یہ کہنا کہ تم ہمارے جان و مال کے مالک ہو، ہم تمھارے بس میں ہیں، جو چاہو سو کرو؛ یہ محض بے جا اور انتہائی بے ادبی ہے اور رسومِ کفر و شرک سے قریب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدِ بندگی اور رسالت سے بڑھانا منع ہے: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’مجھے اس طرح حد سے مت بڑھاؤ، جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھایا تھا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، سو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔ ‘‘[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے جتنی خوبیان اور کمالات عطا کر رکھے ہیں، رسول کہہ دینے میں وہ سب آ جاتے ہیں، کیونکہ بشر کے حق میں رسالت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں ہے، اس
Flag Counter