Maktaba Wahhabi

346 - 548
’’ایمان کی شان یہ بھی ہے کہ قرآن پڑھنے والا قرآن سے اللہ کی ہدایت کا طالب ہو، قرآن میں ہر امر ونہی کے پاس ٹھہر کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرے، قرآن میں جہاں کہیں ﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یا ﴿ یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ﴾ آیا ہے، وہاں یا تو اللہ نے کوئی حکم فرمایا ہے یا کسی کام سے منع کیا ہے، پس اس جگہ سے سرسری نہ گزر جائے، ذرا اس حکم پر کان رکھے اور آنکھیں کھولے۔‘‘[1] کتابوں کے نزول اور انبیا کی بعثت کا مقصود: ’’اللہ تعالیٰ نے متعدد رسول اور مختلف کتابیں اس لیے بھیجی ہیں کہ لوگ عدل وانصاف اختیار کریں۔ سب سے بڑا عدل یہ ہے کہ موحد بنیں، کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ عمل اور عدل (توحید) کے درمیان منافات ومغایرت جتنی زیادہ ہوتی ہے، اتنا ہی زیادہ گناہ بڑا ہوتا ہے۔ گناہوں میں فرقِ مراتب اسی منافات کے تناسب سے سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح عمل اور عدل (توحید) میں جس قدر موافقت زیادہ ہوتی ہے، اسی قدر عمل کا مرتبہ اونچا اور بہتر قرار پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شرک باللہ ذاتی طور پر مقصودِ توحید کے منافی ہے، اسی لیے وہ بلا قید وشرط اکبر کبائر ٹھہرا ہے۔ ہر مشرک پر جنت حرام ہے، اس کا مال و خون مباح ہے اور اہلِ توحید کے لیے ان کو غلام بنانا جائز ہے، کیونکہ اہلِ شرک اللہ کی بندگی سے باہر ہو گئے اور تارکِ عبودیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی مشرک کا کوئی عمل ہر گز قبول نہیں کرتا ہے۔ اس کے حق میں کسی کی سفارش چلتی ہے نہ آخرت میں اس کی کوئی دعا قبول ہوتی ہے، نہ اس کی کوئی لغزش ہی معاف کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرک شخص اللہ کے بارے میں سب سے بڑا جاہل ہوتا ہے۔ اس سے بڑا جہل کیا ہوگا کہ وہ خدا کی مخلوق کو، جو اسی کی طرح عاجز ہے، خدا کا ہم سر بناتا ہے؟ حقیقت میں مشرک نے یہ ظلم اللہ پر نہیں کیا، بلکہ اپنی ہی جان پر ظلم کیا ہے۔‘‘[2] باطل فرقوں کی توحید اور اس کی حقیقت: ’’ہر فرقے کی توحید الگ الگ ہے۔ اہلِ باطل نے اپنے حسبِ منشا الگ الگ توحید مقرر
Flag Counter