Maktaba Wahhabi

389 - 548
علما و مشائخ کے لیے وعید: جو علما ومشائخ ایسے اعمال وافعال اور احوال واقوال پر سکوت اختیارکرتے ہیں، وہ عوام الناس اور جہلاے خلق میں داخل ہیں۔ فرمایا: ﴿ اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ [الأعراف: ۱۷۹] [یہ لوگ چار پایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں] ایسے ہی مولویوں اور درویشوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ﴾ [الأنفال: ۲۲] [سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک بہرے گونگے ہیں] حقیقت میں یہ لوگ علما ہیں نہ مشائخ، بلکہ اللہ کی مخلوق میں سب سے بڑے جاہل ہیں۔ شرکیہ امور میں ان کی خاموشی کا مطلب باطل اور ناجائز طریقے سے مال کھانا اور وصول کرنا ہے۔ درحقیقت وہ انسان کے بھیس میں شیاطین ہیں۔ اینکہ می بینی خلاف آدم اند نیستند آدم غلاف آدم اند [یہ جنھیں آدمی دیکھ رہے ہو، آدمی نہیں بلکہ آدمی کا خول ہیں] اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کا حال اس طرح واضح کر دیا ہے جس میں کسی صاحبِ بصیرت کو کوئی شبہہ باقی نہیں رہتا ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ [التوبۃ: ۳۴] [اے مسلمانو! بیشک بہت سے علما ومشائخ ناحق طریقے سے لوگوں کے مال کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں] اس آیت میں ’’احبار‘‘ سے مراد علما ہیں اور ’’رہبان‘‘ سے مراد مشائخ ہیں۔ یہ آیت اگرچہ یہود ونصاری کے حق میں آئی ہے، لیکن اعتبار عمومِ لفظ کا ہوتا ہے، خصوصِ سبب کا نہیں۔ اسی لیے حدیث میں آیاہے:
Flag Counter