Maktaba Wahhabi

267 - 548
اٹھارویں فصل خاتمے کا بیان اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ ہر شخص کے انجام کی کیفیت نا معلوم ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس کا خاتمہ کس طرح ہو گا۔ ہم کسی آدمی کو جنتی یا جہنمی نہیں کہہ سکتے، کیونکہ کسی کے انجام کار سے ہم واقف نہیں ہیں۔ حکم مستوری و مستی ہمہ برخاتمت ست کس ندانستہ کہ آخر بچہ حالت گزرد [پردہ پوشی اور سر شاری سب کے حکم کا دارو مدار خاتمے پر ہے، کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس حالت پر فوت ہوا ہے؟] نوشتۂ تقدیر کا غلبہ: صحیح حدیث میں آیا ہے کہ آدمی تمام عمر جنتیوں جیسے نیک اعمال کرتا رہتا ہے، حتی کہ اس کے اور بہشت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کا نوشتہء تقدیر، جو اس کا جہنمی ہونا ہے، اس پر یک لخت غالب آ جاتا ہے اور وہ موت کے قریب ایسے کام کرنے لگتا ہے جو اسے جہنم میں لے جائیں گے، اسی طرح بعض آدمی جہنمیوں والے اعمال کرتے ہیں، حتی کہ ان میں اور جہنم میں ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کے جنتی ہونے کا تقدیری فیصلہ اپنا رنگ جماتا ہے، جس کے سبب وہ تھوڑی نیکیوں کے باوجود بلا تکلیف جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔[1] اسی پُرخطر خاتمے کی رو سے ہر ایمان والا اپنے آپ کو ’’أنا مؤمن إن شاء اللّٰہ‘‘ کہہ سکتا ہے۔ یعنی میں ایمان دار ہوں بشرطیکہ اللہ چاہے، اس کا یہ کہنا بطور شک کے نہیں ہونا چاہیے۔ جس شخص کے متعلق معلوم ہو کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے تو مسلمان اس کے حق میں بس اتنی گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ شخص جلد یا بدیر جنت میں پہنچ جائے گا۔
Flag Counter