Maktaba Wahhabi

247 - 548
چوتھی فصل صفتِ کلام متفق عقائد میں سے ایک اعتقاد یہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیشہ سے ایسے کلام کے ساتھ متکلم رہا ہے جو فہم و سماعت اور کتابت و قراء ت میں آتا ہے۔ قرآنِ مجید کتاب اللہ، کلامِ الٰہی، وحی اور تنزیل سماوی ہے۔ حفاظ کرام کو جو چیز یاد ہے اور اس کا پڑھنے والا جس چیز کو پڑھتا ہے اور سامعین کے کانوں میںجو کلمات پہنچتے ہیں، وہ سب حقیقت میں اللہ ہی کا کلام ہے۔ جس چیز پر اس کی کتابت کریں، خواہ وہ بچوں کی تختی ہو یا کتاب، زمین کا کوئی خطہ ہو یا آسمان کا کوئی حصہ، جہاں کہیں اس کی قراء ت ہو، بہر حال وہ اللہ ذوالجلال کا کلامِ پاک ہے۔ اللہ کا کلام اس کی ازلی صفت ہے، مخلوق نہیں ہے اور وہی دلوں میں ضبط، قراء ت کے وقت زبانوں پر متلو، کتابوں میں مرقوم اور سامعہ و باصرہ کو مسموع و مشاہد ہوتا ہے۔ جو شخص اللہ کے کلام کو مخلوق کہے، اہلِ سنت کے نزدیک وہ کافر ہے۔ قرآن مجید کی ابتدا و انتہا دونوں اللہ ہی کی جانب سے ہیں۔ چنانچہ وہ عربی زبان میں جبریل علیہ السلام کے واسطے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ اس میں ہر نیک و بد کے لیے خوشخبری اور وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل قرآن مجید کسی کمی بیشی کے بغیر اپنی امت کے حوالے فرمایا۔ لکھنے پڑھنے میں بنفسہ اللہ تعالیٰ کا کلام لکھا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس کی نقل وحکایت کی کتابت و تلاوت ہوتی ہے۔ کلامِ الٰہی میں حرف و صوت کا ہونا خود قرآن و حدیث سے اس طرح ثابت ہے جس کا کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا۔ جو شخص اس کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کرے، وہ سنت کا تارک اور مبتدع ہے۔ متکلمین اور اشاعرہ وغیرہ کے کلام میں جو کلام نفسی کو صفت ازلی ٹھہرایا گیا ہے، قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter