Maktaba Wahhabi

355 - 548
سوال کرتے ہیں اور نہ داغ دینے کے طالب ہوتے ہیں، بلکہ اللہ کی قضا پر راضی اور اس کی بلا و امتحان پر صابر ہوتے ہیں۔[1] انتہٰی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ بالا حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اہلِ توحید جہنم سے نجات پائیں گے اور حساب و عذاب کے بغیر جنت کی طرف سب سے پہلے جائیں گے۔ یہ ان کے اخلاصِ توحید کا نتیجہ وثمرہ ہے۔ اس حدیث میں موحدین کے اوصافِ اخلاص بھی ذکر کیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں یہ اوصاف ہوں گے، وہ اہلِ توحید اور مستحقینِ جنت میں سے ہو گا۔ غرض کہ صداقتِ ایمان، اخلاصِ عمل، صحتِ عقیدہ اور توکل بڑی ہی پسندیدہ چیزیں ہیں۔ امت محمدیہ کے یہ ستر ہزار اہلِ ایمان اسی توحید کے ثابت ہونے کے طفیل بے حساب وکتاب جنت میں جائیں گے۔ مسند احمد و سنن بیہقی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یوں بھی مروی ہے کہ ان ستر ہزار میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار بھی ہوں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے توحید و اخلاصِ عمل پر دل جمایا ہے اور شرکِ جلی و خفی کی جملہ اقسام سے اعتقاداً و عملاً احتراز کیا ہے۔‘‘[2] صحیحین میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’ان ستر ہزار جنتیوں کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔‘‘[3] توکل کی اہمیت: اس باب میں اصل چیز جس سے سارے فضائل و محاسن حاصل ہوتے ہیں، یہ ہے کہ اکیلے اللہ پر اعتماد وبھروسا ہو، اللہ سے سچی التجا ہو اور صدقِ دل سے اس پر متوکل ہو۔ یہی ثبوتِ توحید کی انتہا ہے، جو ہر مقام کریم اور مرتبہ عظیم کا ثمر عطا کرتی ہے، اسی کے نتیجے میں اللہ کی محبت، رجا، خوف اور قضا و قدر پر رضا و تسلیم کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ﴾ [الطلاق: ۳ ]
Flag Counter