Maktaba Wahhabi

292 - 548
مومن مخلص کا طرزِ زندگی: ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اے رب! ہمیں اسلام کی حالت پر موت دے اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر دے۔ جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے اس کا ایمان و اسلام خالص و صحیح ٹھہرے تو اسے چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث کے مطابق اپنے عقائد درست کرے، تمام گناہوں سے توبہ کرے اور الحاد و ارتداد سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ اگر خدا نخواستہ اس سے کوئی ایسا قول و فعل صادر ہوا ہو جو مستلزمِ ارتداد ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس سے توبہ کرے اور یہ عزم کر لے کہ پھر کبھی اس کا مرتکب نہ ہو گا۔ اس طرح اس کو کھوئی ہوئی سعادت پھر میسر آ جائے گی۔ تارکِ صلات کا حکم: اہلِ حدیث کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ جو مسلمان عمداً فرض نماز ترک کر دے، آیا وہ کافر ہو گا یا نہیں؟ مقتداے اہلِ سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر علماے سلف کا یہ اعتقاد ہے کہ تارکِ نماز کافر اور اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، کیونکہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ بندوں کے ایمان اور کفر میں فرق کرنے والی چیز یہی نماز کا چھوڑ دینا ہے۔[1] لہٰذا اس حدیث کے مطابق تارکِ نماز کافر کہلائے گا، جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا علماے سلف کی ایک جماعت کے ساتھ موقف یہ ہے کہ ترکِ نماز سے مسلمان کو کافر نہیں کہیں گے، تاوقتیکہ نماز کے فرض ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو، لہٰذا ان کی رائے یہ ہے کہ بے نماز کو مرتد کی طرح قتل نہیں کرنا چاہیے۔ رہی وہ حدیث جس میں تارکِ نماز کے کافر ہونے کا بیان ہے تو یہ لوگ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ ترکِ نماز، جس پر کفر کا حکم ہے، وہی ہے کہ ترکِ نماز انکار کے ساتھ ہو۔ مگر حدیث کا ظاہری مفہوم پہلے موقف کی تائید کرتا ہے، اگرچہ اس میں کمزور سی تاویل بھی ہو سکتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ ٭٭٭
Flag Counter