Maktaba Wahhabi

189 - 548
جو اس کے سوا ہے وہ فضول اور لا یعنی ہے۔ اس کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔[1] 2۔حدیثِ ابراہیم عذری رحمہ اللہ میں فرمایا ہے کہ علمِ دین کو پچھلوں میں سے وہ لوگ اٹھائیں گے جو عادل ہیں۔ وہ اس سے مبالغہ کرنے والوں کا بگاڑنا اور جھوٹوں کا جھوٹ باندھنا اور نادانوں کی تاویل مٹاتے ہیں۔ اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔[2] اس حدیث میں علماے قرآن وحدیث کی تعریف کی ہے اور جو لوگ کتاب وسنت کے برخلاف ہیں، ان کو غالی، مبطل اور جاہل فرمایا ہے۔ اسی وجہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زیاد بن حدیر سے کہا تھا کہ تو جانتا ہے کہ کون سی چیز اسلام کو ڈھاتی ہے؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: ’’یھدمہ زلۃ العالم، وجدال المنافق بالکتاب، وحکم الأئمۃ المضلین‘‘[3] [عالم کی لغزش اور منافق کا قرآن سے جھگڑا کرنا اور گمراہ کرنے والے حاکموں کا حکم کرنا] اس کو دارمی نے روایت کیا ہے۔ یعنی جب کوئی عالم مولوی پھسل جاتا ہے اور غلطی میں پڑ جاتا ہے تو ایک عالَم اس کے پیچھے غلطی پر چل کر برباد ہوتا ہے اور دینِ اسلام میں خلل آ جاتا ہے، پھر جو شخص اس غلطی کو واقفیت کے باوجود نہ مٹائے تو گویا وہ دینِ اسلام کے خلل کا روادار ہے۔ اسی طرح جب حاکم، امیر اور قاضی خود گمراہ ہو جائیں اور لوگوں کو حکم کریں تو ہزار ہا مخلوق خوف و رجا میں آ کر گمراہ ہو جاتی ہے۔ دیندار کو چاہیے کہ ایسے علما و امرا اور جھوٹے مسلمانوں کی بات پر دھیان نہ کرے، بلکہ ان پر ہاتھ سے یا زبان سے یا دل سے رد کرے اور یہ ایمان کا ادنا درجہ ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہتا ہے۔ مخلوق کی اطاعت کب جائز ہے؟ 3۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں مرفوعاً آیا ہے کہ مسلمان پر ہر پسند ونا پسند امر میں امیر کی اطاعت وہاں تک ہے کہ کسی معصیت کا مامور نہ ہو، پھر جب اس کو معصیت کرنے کا حکم دیا جائے تو پھر سننا ہے نہ ماننا۔ اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔[4]
Flag Counter