Maktaba Wahhabi

515 - 548
اس کے ناجائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، البتہ کاغذ وغیرہ پر آیتِ قرآن لکھ کر لٹکانا بعض سلف کے نزدیک جائز ہے، جیسے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، جبکہ بعض سلف کے نزدیک جائز نہیں ہے، جیسے عبد اللہ بن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما ۔ یہی قول حذیفہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما وغیرہ کا بھی ہے۔ تابعین کی ایک جماعت بھی اسی طرف گئی ہے۔ محققین نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے، اس لیے کہ لٹکانے سے نہی عام ہے اور اس کے عموم کا کوئی مخصص نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں سد ذریعہ ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ قضاے حاجت اور استنجا کے وقت اس کی اہانت ہوتی ہے، بہر حال بہ نسبت تعلیق کے ترکِ تعویذ افضل بلکہ حق وصحیح ہے، مومن کو اسی افضل پر قائم و دائم رہنا چاہیے۔ تقوی و اخلاص کے کئی مراتب ہیں، ایک رتبہ دوسرے رتبے پر فائق ہوتا ہے، لیکن اس کے حاصل کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن ستر ہزار لوگوں کا بغیر حساب جنت میں جانے کا ذکر ہے، ان کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ وہ دم نہیں کرتے، حالانکہ یہ جائز ہے، لیکن متقی شخص وہ ہوتا ہے جو مباح چیز کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ کہیں اس میں کراہت وقباحت کا کوئی عنصر نہ ہو۔ تِوَلۃ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیثِ مذکور میں منتر کی طرح تِوَلہ کو بھی شرک فرمایا ہے۔ یہ بھی تعویذ اور منتر جیسا ایک عمل ہے، جسے اس لیے کرتے ہیں کہ بیوی اپنے میاں کی محبوب ہوجائے اور میاں اس کو چاہنے لگے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کی یہی تفسیر کی ہے، جو سحر (جادو) کی ایک قسم ہے۔ اس کے شرک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمل سے غیر اللہ سے حصولِ منفعت اور دفعِ مضرت کا قصد کیا جاتا ہے۔ عبد اللہ بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُکِّلْ إِلَیْہِ )) [1] (رواہ الترمذي) بعض علما نے کہا ہے کہ کسی چیز سے تعلق کبھی دل سے ہوتا ہے، کبھی فعل سے اور کبھی دونوں سے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ اس شخص کو اسی معلق شے کے حوالے کر دیتا ہے اور اس سے اپنا تعلق اٹھا لیتا ہے، پھر اس آدمی کا بھروسا اللہ پر نہیں رہتا، بلکہ اسی معلق شے پر اس کا اعتماد ہوتا ہے۔ ڈاڑھی کو باندھنا اور لپیٹنا: ڈاڑھی کو باندھنا، لپیٹنا یا اس میں گرہ لگانا ممنوع ہے۔ رویفع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter