Maktaba Wahhabi

145 - 548
اس اقرار میں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، گویا اس بات کا اقرار ہے کہ اللہ کا جو حکم وہ لائے ہیں، اس کی اطاعت ساری امت پر واجب ہے نہ کسی اور کی، اس لیے کہ رسول کے سوا اور کوئی معصوم نہیں ہے جس کی بات واجب الاتباع سمجھی جائے۔ اب جو کوئی غیر کی اطاعت کرے گا اور اس کی نئی بات کو مانے گا تو گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور اس کی گواہی رسالت کی بابت بالکل جھوٹی ٹھہرے گی۔ اسی طرح جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانے اور شرع کا حکم نہ مانے یا بعض مانے اور بعض نہ مانے یا امام یا پیر کہیں تو مانے اور اگر قرآن وحدیث سے کوئی دوسرا عالم باللہ نکال کر بتائے تو نہ مانے تو وہ شخص بھی مسلمان نہیں ہے۔ جب اس کلمے کے معنیٰ سمجھ لیے تو اب باقی چار رکن کا مطلب اور ان کے بجا لانے کی صورت رسالہ ’’بذل المنفعۃ‘‘ سے معلوم کرنا چاہیے۔[1] ایمان کے شعبہ جات: 2۔حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے: (( اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً، أَفْضَلُھَا قَوْلُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ، وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْإِیْمَانِ)) [2] اسے شیخین نے روایت کیا ہے۔ یعنی ایمان کی ستر (۷۰) سے اوپر کچھ راہیں ہیں۔ ان میں افضل کلمہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور ان میں سے سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کرنا اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان قول وعمل دونوں سے عبارت ہے اور ایمان کی ایک شاخ خالق ومخلوق دونوں سے شرم کرنا ہے۔ بیہقی نے ایمان کے ان شعبہ جات کا بیان کتاب ’’شعب الایمان‘‘ میں کیا ہے اور ہم نے اپنے بعض رسائل میں ان کی گنتی لکھی ہے۔[3] اس جگہ فقط یہ بات بتانا مقصود ہے کہ کلمہ پڑھنا، شرم کرنا اور مخلوق کی ایذا کا روادار نہ ہونا ایمان کا مقتضا ہے۔ ایمان کی ستر (۷۰) شاخیں، اگرچہ شارع علیہ السلام کی طرف سے متعین ہو کر نہیں بتائی گئی ہیں، لیکن یہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت
Flag Counter