Maktaba Wahhabi

186 - 548
باب ششم بدعتِ تقلید کی تردید اکثر لوگ مولویوں اور درویشوں کے کلام اور کام کو سند پکڑتے ہیں اور ان کے قول وعمل کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ ان کے حق میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو کچھ انھوں نے کیا اور کہا ہے وہی ٹھیک ہے اور اللہ کی وہی راہ ہے خواہ وہ کلام اور عمل قرآن وحدیث کے موافق ہو یا مخالف، اور کہیں سے اس کی سند ہو یا نہ ہو۔ گویا ان کو شرع کا حاکم اور شارع جانتے ہیں، پھر جو کوئی ان کے قول وفعل کے خلاف کوئی آیت یا حدیث پڑھے تو اس کا انکار اور اس کے مطلب میں تکرار کرنے کو تیار ہیں اور ایمان جانے اور رہنے کا کچھ لحاظ نہیں، حالانکہ اصل حاکم اللہ ہے۔ اس کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہیں ماننا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ماننا بھی اللہ ہی کا حکم ہے، خود پیغمبر بھی حاکم نہیں ہے، پھر کوئی اور مجتہد، فقیہ، مولوی، مفتی، قاضی، ملا، طالب علم، غوث، قطب، ولی، پیر، مرشد، خادم، مجاور، مرید کس قطار و شمار میں ہیں؟ ہاں قرآن وحدیث کی بات جو نہ جانتا ہو، وہ واقف کار لوگوں سے دریافت کر لے، کیونکہ یہ بھی اللہ کا حکم ہے: ﴿ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [النحل: ۴۳] [پس اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے دریافت کر لو] ذکر نام ہے قرآن کا۔ قرآن میں ہر امر ونہی میں اطاعت واتباعِ رسول کا حکم ہے تو اہلِ ذکر سے مراد علماے کتاب وسنت ٹھہرے، نہ کہ اہلِ رائے وقیاس وفقہ اصطلاحی ومشائخِ طریقت۔ جو مسئلہ قرآن میں مفصل مذکور نہ ہو، وہ حدیث سے دریافت کرے۔ اگر اس کا بیان صریح حدیث میں نہ ملے تو اجماعِ صحابہ سے معلوم کر لے، اگر یہ بھی نہ ملے تو پھر اگر خود عالم ہے تو اجتہاد کرے یا دوسرے مجتہد کے قیاس جلی پر چلے، پھر وہ مجتہد بھی ایسا ہو جس کو اکثر علماے اسلام نے قبول کیا ہو، جیسے ائمہ اربعہ اور وہ قیاس بھی فاسد اور نص و دلیل کے مخالف نہ ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ صحابہ اور مجتہدین معصوم نہ تھے۔ اجماع کے مسئلے میں فی الجملہ ان کی عقل کو کچھ دخل ہے، اس لیے وہ اجماعی مسئلہ صریح
Flag Counter