Maktaba Wahhabi

331 - 548
گویا مخلوقات کی بڑی بڑی ہستیوں اور کائنات کے بلند مرتبہ لوگوں کے اجماع و اتفاق سے اللہ کا ایک اکیلا معبود ہونا ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے ساتھ اہلِ علم کو گواہی میں شامل کرنا علم کی فضیلت پر بہت بڑی دلیل ہے۔ معلوم ہوا کہ عالم وہی ہے جس کی بات اللہ کی بات کے موافق ہو، وہ عالم نہیں جو اللہ اور کتاب اللہ کے خلاف بات کہے۔ چوتھی آیت: چوتھی آیت میں کہا ہے: ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحاً إلَی قَوْمِہٖ فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ إِلٰہٍ غَیْرُہٗ﴾ [المؤمنون: ۲۳] [ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس بھیجا، نوح نے کہا کہ اے قوم! اللہ کی پرستش کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے] آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے زمین والوں کی طرف نوح علیہ السلام ہی رسول بن کر آئے تھے، ان سے پہلے جو دس صدیاں گزر چکی تھیں، وہ سب شریعت حقہ پر قائم تھیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں شرک عام ہو گیا تھا، خاص کر ان کی قوم تو خالص مشرک ہو گئی تھی۔ اللہ نے اس کی ہدایت کے لیے نوح علیہ السلام کو بھیجا۔ جب قوم نے ان کا کہنا نہ مانا تو طوفان آیا جس میں سب ڈوب گئے۔ چند موحد لوگ بچ رہے جو ایمان لائے اور نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہو گئے تھے۔ شرک کا یہ انجام تو دنیا میں ہوا، رہی آخرت کی بات تو وہاں ہمیشہ کے لیے جہنم نصیب ہو گی۔ نوح علیہ السلام کے بعد وقتاً فوقتاً پے در پے پیغمبر آتے رہے، وہ سب یہی پیغام لاتے رہے کہ توحید اختیار کرو، شرک سے بچو۔ مگر جب ان کی قوموں نے انکار کیا تو اس کے نتیجے میں عذابِ الٰہی آتا رہا۔ گذشتہ امتوں پر گیارہ طرح کا عذاب آیا تھا، جن کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا نُوْحِیْٓ إِلَیْہِ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ [الأنبیائ: ۲۵ ]
Flag Counter