Maktaba Wahhabi

447 - 548
عبادت کی حکمت اور اس کی مشروعیت کی آخری غرض وغایت یہی ہے۔ طریقِ سلوک وتصوف سے متعلق جن لوگوں نے گفتگو کی ہے، ان کی کتابوں میں ان تین طریقوں کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔ قسم چہارم: یہ وہ لوگ ہیں جو خلق وامر اور قدر وسبب کے درمیان جمع کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک عبادت کا راز اور غایت اس بات پر مبنی ہے کہ حقیقتِ الٰہیہ کی معرفت حاصل ہو۔ اللہ کے اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت موجبِ الٰہیت اور اس کا اثر وسبب ہوتی ہے اور الٰہیت سے عبادت کا تعلق اس طرح ہوتا ہے جیسے صفات سے صفات کے متعلق کا ربط ہوتا ہے اور معلوم کا ارتباط علم سے، مقدور کا قدرت سے، اصوات کا سمع سے، احسان کا رحمت سے اور عطا کا جود وسخا سے ہوتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے نزدیک جو شخص ایسی معرفت کے ساتھ قائم رہتا ہے جس کی ہم نے لغوی، شرعی اور مصدری تفاصیل بیان کی ہیں تو عبادات کی حکمت وغایت کی معرفت اس کے لیے صحیح اور مستقیم ہو جاتی ہے اور وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ سارے بندے اسی غایت ومقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی کام کے لیے بھیجے گئے تھے، ساری کتابیں اسی غایت کے لیے نازل ہوئی ہیں اور جنت ودوزخ اسی غرض سے بنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت میں اسی کی صراحت فرمائی ہے: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ [الذاریات: ۵۶] [میںنے جن وانسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں] غرض کہ عبادت ہی وہ چیز ہے جس کے لیے یہ ساری خلائق ایجاد کی گئی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا ہے: ﴿اَیَحْسَبُ الْاِِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی﴾ [القیامۃ: ۳۶] [کیا انسان کو یہ گمان ہے کہ وہ بے کار چھوڑ دیا جائے گا؟] امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ بے کار چھوڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو نہ کوئی امر کیاجائے اور نہ کسی چیز سے منع کیا جائے۔ ایک دوسرے مفسر نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ انسان کو امر ونہی پر ثواب وعقاب نہ دیا جائے۔ معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق بے کار اور بے سبب نہیں ہے، بلکہ اس سے مطلوب و مقصود عبادت ہے اور عبادت کی حقیقت یہی فرماں برداری اور احکام کی بجا آوری ہے۔
Flag Counter