Maktaba Wahhabi

138 - 548
باب دوم حقیقتِ ایمان کا بیان ایمان کی پہلی علامت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [النسائ: ۶۵] [سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میںکسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں] اس آیتِ شریفہ میں حق عزوجل نے اپنی قسم آپ کھا کر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مومن کا ایمان تب ہی ٹھیک ہوتا ہے کہ وہ ہر جھگڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکَم ٹھہرائے، پھر ان کے حُکم سے اس کا دل تنگ نہ ہو، بلکہ مضبوطی سے اس کو مان لے۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں یوں تھی کہ آپ کے پاس آکر حکم حاصل کرتے تھے اور وفات کے بعد اس طرح پر ہے کہ سنتِ مطہرہ کی طرف رجوع کریں، جس طرح کہ اہلِ تقلید اقوالِ رجال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان کی علامت اور دستاویز یہی ہے کہ دین ودنیا کے جس کام کی بابت آپس میں جھگڑا اٹھے، اس کے فیصلے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منصف ٹھہرائے، پھر جو حکم حدیث سے ثابت ہو، اس میں چون وچرا کرے اور نہ اس سے ناخوش اور دل میں تنگ ہو، بلکہ بہ سر و چشم اس حکم کو تسلیم کر لے۔ اگر مان لے تو ایمان ہے، وگرنہ نہیں۔ دوسری آیت میں فرمایا ہے:
Flag Counter