Maktaba Wahhabi

118 - 548
مصحف آرسی[1] وغیرہ رسوم کا وجود نہ تھا، سو اس طرح کا احداث، خواہ عمل میں ہو یا قول میں یا عقیدے میں، بدعت اور مردود ہے۔ یہی حدیث حسنہ وسیئہ کی طرف تقسیمِ بدعت کے رد پر دلیل ہے۔ نیل وغیرہ میں یہی استدلالِ مذکور بسط کے ساتھ مسطور ہے، وللّٰہ الحمد۔[2] ہر بدعت ضلالت اور گمراہی ہے: 6۔جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ، وَخَیْرَ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ )) [3] (رواہ مسلم) [اما بعد! یقینا بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راستہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے اور بدترین کام دین میں نئے پیدا کردہ ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے] اس حدیث میں کتاب وسنت کو خیر ٹھہرایا ہے اور محدثات کو شر بتایا ہے۔ یہ محدثات ہر اعتقادی، قولی اور فعلی امر کو شامل ہیں۔ پھر ہر بدعت کو کسی نوع کی تخصیص کے بغیر ضلالت کہا ہے۔ یہ بدعات کی عدم تقسیم پر دلیل بین ہے۔ اگر کوئی فردِ بدعت ضلالت نہ ہوتی تو یہ کلیہ مطلقہ ارشاد نہ ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کلیہ ہر بدعت کو عام وشامل ہے، خواہ اس کو حسنہ کہیں یا سیئہ۔ اس عام کی تخصیص کسی دلیل مقدم یا مساوی کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ فقہاے فروع کے ایک گروہ نے بدعات کی تقسیم کی ہے، لیکن ان کے مقابلے میں دوسری جماعتِ فقہا عدمِ تقسیم کی قائل ہے، جیسے شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانی، صاحب رد الاشراک [شاہ اسماعیل شہید]، سید حسن قنوجی، سید احمد قنوجی، سید محمد بن امیر یمانی اور علامہ قاضی شوکانی رحمہم اللہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور دیگر کتبِ سنن کی احادیث حدیثِ مسلم کے ساتھ معارضے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں جمع کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو ہر محدث کو شامل ہے اور
Flag Counter