Maktaba Wahhabi

523 - 548
غیر اللہ کی نذر: اسی طرح اللہ کے سوا کسی کے لیے بھی نذر ماننا شرک ہے، کیونکہ نذر ایک عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی کرنی جائز نہیں ہے، اسی لیے صرف اسی نذر کو پورا کرنا واجب ہے جو اللہ کے لیے مانی گئی ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿یُوفُوْنَ بِالنَّذْرِ﴾ [الدھر: ۷] [نذر پوری کرتے ہیں] نذر وہ طاعت ہے جس سے کسی کا تقرب حاصل کیا جائے، جب وہ تقرب غیر اللہ کے ساتھ کیا گیا تو شرک ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ﴾ [الأعراف: ۱۳۸] [اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کرایا تو وہ ایک قوم کے پاس سے گزرے جو اپنے بتوں پر بیٹھے رہتے تھے] اس آیت سے معلوم ہوا کہ بتوں کے مجاورین اور خادمین کو نذر ونیاز دینا معصیت ہے، یہی حال اس نذر کا ہے جو کسی قبر ومشہد کے مجاور کو دی جائے۔ پھر یہ نذر اگر اس کی خانقاہ، زاویے اور حاضر ہونے کی جگہ وغیرہ کی تعظیم کے لیے ہے یا مقبور و مدفون شخص کی تکریم کے واسطے ہے تو بالکل باطل ہے۔ اگر نذر اس بنیاد پر مانی ہے کہ وہ مزارات یا قبر والے بلاؤں کو دور کرنے یا نعمتوں وراحتوں کو فراہم کرنے والے ہیں اور ان کی نذر ونیاز کرنے سے آفات وامراض دور ہوتے ہیں تو پھر یہ شرک جلی ہوا۔ قبور پر چراغ جلانا، تیل صرف کرنا، خواہ کسی پیغمبر کی قبر ہو یا کسی صالح وولی کی، بالکل باطل ہے۔ نذر وہی صحیح ہوتی ہے جو اللہ کے لیے ہو۔ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے: ’’نذر کسی شے کو رد نہیں کرتی، بلکہ اس حیلے سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے۔‘‘[1] دوسری حدیثوں میں نذر طاعت کی اجازت دی گئی ہے اور نذر معصیت سے نہی وارد ہوئی ہے، جس سے اللہ کے لیے نذر ماننے کا جواز ثابت ہوتا ہے، پھر بھی ترکِ نذر افضل ہے۔ صحابہ کرام
Flag Counter