Maktaba Wahhabi

411 - 548
[اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو، چاہے جان سے مار ے جاؤ یا آگ میں جلائے جاؤ] جس طرح کبھی پرہیز گاروں کو فاسقوں وفاجروں کے ہاتھ سے اور مسلمانوں کو مشرکوں وکافروں کے ہاتھ سے مشیت الٰہی کے تحت کچھ ایذا وتکلیف پہنچ جاتی ہے تو وہ صبر کرتے ہیں اور بے صبری سے اپنا دین بگاڑنا نہیں چاہتے ہیں، اسی طرح کبھی کسی نیک آدمی کو جنوں اور شیطانوں کے ہاتھ سے ارادہ الٰہی کے تحت کچھ آفت پہنچتی ہے تو اس پر بھی صبر کرنا چاہیے، ایسا نہ کرے کہ اس جن وشیطان سے ڈر کر اس کی نذر ونیاز بجا لائے اور شرک میں پھنس جائے، بلکہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ میرے دین کا امتحان لے رہا ہے۔ سب سے بڑا گناہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’سب سے بڑا گناہ اللہ کے یہاں یہ ہے کہ بندہ کسی کو اللہ کا ہمسر ومقابل قرار دے، حالانکہ اللہ ہی نے اس کو پیدا کیا ہے۔‘‘ (رواہ الشیخان) [1] یعنی جب ہمارا خالق اللہ ہے تو ہم کو یہی چاہیے کہ ہم اسی کو ہر وقت پکاریں، اسی کو حاضر وناظر جان کر اپنی ہر مراد اس سے مانگیں۔ ہمیں کسی اور سے کیا کام ہے؟ جس طرح کوئی شخص کسی ایک بادشاہ کا غلام ہو گیا تو وہ اپنے ہر کام کا تعلق اسی بادشاہ سے رکھتا ہے، دوسرے بادشاہ سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا، پھر کسی خدمت گار، چپراسی اور چوب دار کا کیا ذکر ہے؟ اسی لیے قرآن پاک میں آیا ہے: ﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشٰکِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾ [الزمر: ۲۹] [مشرک کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کئی آدمیوں کا غلام ہو، ہر آدمی اس سے اپنی خدمت لینا چاہے، وہ اسی کش مکش میں پڑا رہے، موحد کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایک خاص آدمی کا خالص فرماں بردار ہو، دوسرے سے اس کو کچھ سروکار نہ ہو، بھلا یہ دونوں کب برابر ہوسکتے ہیں؟( ایک سخت عذاب میں گرفتار ہے، دوسرا نہایت آرام میں ہے) الحمد للہ، لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے]
Flag Counter