Maktaba Wahhabi

343 - 548
بردار اہلِ کلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آیاتِ مخاصمہ (گمراہ فرقوں کی تردید والی آیتوں) میں مخالفین کو ان کے مشہور ومسلم اقوال اور بیانات سے الزام دیا ہے۔ اہلِ منطق کے طریقے پر دلائل کی تحقیق ووضاحت نہیں کی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ نزولِ قرآن کا اصل مقصد یہ ہے کہ نفوس بشریہ (انسانوں) کو باطل عقائد اور فاسد اعمال سے پاک صاف کرکے مہذب بنایا جائے۔ عقائد باطلہ کے رد کے لیے آیات مخاصمہ نازل ہوئی ہیں اور اعمال فاسدہ کی نفی کے لیے آیاتِ احکام آئی ہیں۔ ان آیات میں مخاصمہ و تردید دو طرح پر مذکور ہے، ایک یہ کہ عقائد باطلہ کا ذکر کرکے ان کی قباحت کی صراحت کی ہے، دوسرے یہ کہ مخالفین کے شبہات ذکر کرکے ان کا جواب قطعی دلیل سے پیش کیا ہے۔ 2۔دوسرا علم تذکیر بآیات اللہ ہے۔ (یعنی اللہ کی نشانیوں سے نصیحت کرنا)۔ 3۔تیسرا علم تذکیر بایام اللہ ہے۔ (یعنی گذشتہ قوموں کے حالات وواقعات سے عبرت دلانا)۔ [1] ’’اگر کسی کو اس امت میں یہود کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان کے دنیا طلب علماے سو کو دیکھے، جن کو تقلیدِ سلف کی عادت ہوتی ہے۔ وہ کتاب و سنت کی نصوص سے روگردانی کرتے ہیں، کسی ایک ہی عالم کے تشدد اور پسندیدہ مسائل کو پکڑے ہوئے ہیں، معصوم شارع علیہ السلام کے کلام سے بے پروا ہو کر موضوع احادیث اور فاسد تاویلات کو پکڑے رہتے ہیں۔ جس نے اس امت میں نصاری کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان کے مشائخ واولیا کی اولاد کو دیکھو کہ ان کو اپنے آبا و اجداد سے کیا کیا خوش گمانیاں ہیں۔ وہ ان کی تعظیم وتکریم میں کس قدر افراط ومبالغہ کرتے ہیں۔ اور اس امت میں مشرکین کا نمونہ دیکھنا ہو تو قبر پرستوں اور پیر پرستوں کو دیکھو کہ اپنے نفع و ضرر میں ان پیروں کا تصرف وعمل دخل ثابت کرتے ہیں۔ منافقین کی اقسام: ’’رہے منافق لوگ تو وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو زبان سے کلمہ کہتے ہیں، لیکن ان کا دل کفر پر مطمن ہے۔ یہ آیت انھیں کے حق میں نازل ہوئی ہے: ﴿ إِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ [النسائ: ۱۴۵]
Flag Counter