Maktaba Wahhabi

379 - 548
کلمہ توحید اور اس کے تقاضے: بہر حال یہ کلمۂ جاہ وجلال اور جملہ کمال وجمال تفصیلی واجمالی طور پر کفر واسلام اور توحید وشرک کے درمیان حد فاصل ہے۔ یہ کلمہ تقوی اور عروہ وثقی (مضبوط کڑا) ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے جسے ابراہیم علیہ السلام اپنی نسل میں باقی چھوڑ گئے، تاکہ وہ صحیح راہ پر لگے رہیں۔ اس سے مراد صرف اسے زبان سے کہنا نہیں کہ منہ سے کلمہ کہتے جائیں اور اس کا معنی نہ جانیں، کیونکہ اس طرح تو منافقین بھی یہ کہتے ہیں، حالانکہ وہ کافروں سے بھی اسفل طبقہ جہنم میں ہوں گے، جب کہ وہ نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ بھی دیتے ہیں، بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ اس کلمے کو دل سے پہچانیں، کلمہ اور کلمے والوں سے محبت رکھیں اور جو اس کلمے کے مخالف ہوں، ان کو دشمن سمجھیں۔ ایک مرفوع حدیث میں آیا ہے کہ جس نے ’’ لا إلٰہ إلا اللّٰہ ‘‘ مخلص ہو کر کہا۔ دوسرے لفظ میں ہے کہ ’’خالص دل سے کہا‘‘ تیسرے لفظ میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’اللہ کے سوا معبودوں کا انکار کیا تو وہ جنت میں جائے گا۔[1] افسوس ناک صورت حال: یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ اکثر لوگ اس کلمے کے معنی ومطلب سے ناواقف اور بے خبر ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کلمے میں نفی اور اثبات دونوں چیزیں ہیں۔ کلمے کے آغاز میں اللہ کے ما سوا کی الوہیت ومعبودیت کی نفی ہے، چاہے انبیا ہوں، یہاں تک کہ خاتم النبیین، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی یا ملائکہ ہوں، یہاں تک کہ جبرئیل امین علیہ السلام بھی معبود نہیں ہو سکتے، اولیا وصلحا کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ کلمے کے آخری جز میں اللہ رب العالمین کے لیے الوہیت و معبودیت کا اثبات ہے۔ اس الوہیت میں اللہ کے مقربین میں سے کسی کا کچھ حق نہیں ہے۔ جس الوہیت کو اللہ نے خاص اپنے نفس مقدس کے لیے ثابت کیا ہے، اس کی نفی حضرت محمد وجبرئیل علیہم السلام تک سے کی ہے۔ اللہ کی معبودیت میں رائی کے ایک دانے برابر بھی کسی کا حصہ نہیں ہے، اس کو خوب اچھی طرح سمجھنا اور غور کرنا چاہیے۔ دور حاضر اور زمانہ جاہلیت کے مشرکین میں مماثلت: اس زمانے میں عام لوگوں نے ایک نئی الوہیت رائج کرکے اس کا نام ولایتِ سِرّ بلکہ
Flag Counter