Maktaba Wahhabi

524 - 548
نماز، روزے، زکات اور حج و عمرے کی نذر مانتے تھے تو اللہ نے ان کا نام ’’اَبرار‘‘ رکھا ہے۔ نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ [1]مساجد و کعبہ کی آرایش و زیبایش کرنے کے لیے نذر کرنا یا فاسقوں وبد عملوں کو نذر کا مال دینا جس سے ان کو معصیت پر مدد ملے، مخالفِ شرع اور ناجائز امر ہے، اسی طرح ایسی چیز کی نذر جو مشروع تو ہے، مگر اس کوپورا کرنے کی طاقت نہیں ہے، اس کو پورا کرنا بھی واجب نہیں ہے، البتہ اس کا کفارہ دینا چاہیے۔ اگر کسی مشرک نے قربت اور نیک کام کی نذر کی تھی، پھر وہ مسلمان ہوگیا تو اس کو پورا کرنا لازم ہے۔ نذر ثلث مال (۳/۱) سے زیادہ میں نافذ نہیں ہوتی ہے۔ استعاذہ بغیر اللہ: غیر اللہ کی پناہ پکڑنا شرک ہے۔ اس کو استعاذہ بغیر اللہ کہتے ہیں۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کی پناہ پکڑنا۔ جس کی پناہ پکڑی جائے، اس کو ’’معاذ‘‘ اور ’’ملجا‘‘ بولتے ہیں۔ عیاذ دفعِ شر کے لیے بولا جاتا ہے، اس کے مقابل ’’لیاذ‘‘ طلبِ خیر کے لیے ہے۔ استعاذہ باللہ (اللہ کی پناہ پکڑنا) ایک عبادت ہے جس کا حکم اللہ نے اپنے بندوں کو دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ [الأعراف: ۲۰۰] [اللہ کی پناہ چاہو، بے شک وہ سننے جاننے والا ہے] 2۔﴿اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ [الفلق: ۱] [میں پناہ پکڑتا ہوں صبح کے رب کی] 3۔﴿أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ [الناس: ۱] [میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی] اس لیے جو کوئی غیر اللہ کے لیے یہ عبادت کرتا ہے، وہ مشرک فی العبادۃ اور غیر اللہ کا پجاری ٹھہرتا ہے، وہ اللہ کا عابد اور پرستار نہیں ہوتا۔ جاہلیت میں کچھ لوگ جنوں سے استعاذہ کرتے اور کہتے تھے: ’’أعوذ بسید ھذا الوادي‘‘[2] [میں اس علاقے کے سردار کی پناہ پکڑتا ہوں] اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔ فتح المجید میں مذکور ہے کہ علما کا اجماع ہے کہ استعاذہ بغیر اللہ جائز نہیں ہے۔[3]
Flag Counter