Maktaba Wahhabi

159 - 548
پہنچا وہ تجھ سے چوکنے والا نہ تھا اور جو تجھ سے چوک گیا وہ تجھ کو پہنچنے والا نہ تھا اور اگر تو اس کے خلاف پر مرا تو پھر تو جہنم میں جائے گا۔[1] یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ آدمی کو جو رنج و تکلیف، راحت و جراحت، خوشی و غم، صحت و مرض، فتح و شکست اور مفلسی و امیری پہنچتی ہے، وہ سب تقدیر کے لکھے ہوئے کے موافق پہنچتی ہے اور کسی طرح نہیں ٹلتی۔ اگر ساری مخلوق چاہے کہ نہ پہنچے تو ممکن نہیں کہ نہ پہنچے اور اگر سب لوگ یہ چاہیں کہ پہنچے تو ممکن نہیں کہ پہنچے۔ اب جو کوئی اس کے خلاف سمجھے کہ فلاں سبب سے تقدیر پلٹ گئی اور تقدیر کا لکھا مٹ گیا اور تدبیر چل گئی، پھر وہ شخص بے توبہ مر جائے تو دوزخی ہو گا اور اس کی کوئی نیکی صدقہ، خیرات، نماز، روزہ، زکات اور حج قبول نہ ہو گا، کیونکہ اس نے اللہ کی تقدیر کا انکار کیا ہے۔ وہ مالک الملک شہنشاہ ہے، جیسا اس نے چاہا، ویسا ہر ایک کی قسمت میں آسمان و زمین کی پیدایش سے پچاس ہزار برس پہلے لکھ دیا۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ اگر سارے ملائکہ اور بنی آدم کو دوزخ میں بھیج دے تو بھی وہ ظالم نہ ٹھہرے، کیونکہ ساری مخلوق اس کی ملک و عبید ہے اور اگر سب کو بخش دے تو یہ اس کی مہربانی ہے، کسی کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ [المائدۃ: ۱۱۸] [اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے] مسئلہ تقدیر میں جھگڑا کرنے کی ممانعت: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ہم قدر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے، آپ ایسا خفا ہوئے کہ چہرہ لال ہو گیا، گویا اس پر انار نچوڑ دیا گیا ہے، پھر فرمایا: (( أَبِھٰذَا أُمِرْتُمْ؟ أَمْ بِھٰذَا أُرْسِلْتُ إِلَیْکُمْ؟ إِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ حِیْنَ تَنَازَعُوْا فِيْ الْأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ أَنْ لَّا تَتَنَازَعُوْا فِیْہِ )) [2] اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
Flag Counter