Maktaba Wahhabi

489 - 548
باطل اور گمان فاسد ہے۔ جب پیغمبر کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی اجازت وحکم کے بغیر شفاعت نہ کر سکیں گے اور اجازت کے بعد صرف ان اہلِ توحید کی شفاعت کریں گے جو مرتکبِ کبائر ہیں تو وہاں پیر، ولی، شہید اور جن پری کس شمار میں ہوں گے؟ جو ان مشرکوں کی شفاعت کریں، جنھوں نے اپنی ساری عمر اولیا یا دشمنانِ خدا کو متصرف سمجھ کر ان کی خدمت ونذر و نیاز میں برباد کی ہے؟ لا حول ولا قوۃ إلا با اللّٰہ العلي العظیم ۔ استغاثہ واستعانت: اس جگہ کئی الفاظ ہیں۔ ایک استغاثہ (فریاد رسی) ہے۔ یعنی کسی کو اپنی مدد کے لیے بلانا کہ ہمارا یہ کام کردو یا ہماری اس تکلیف کے ازالے میں شریک حال ہو جاؤ۔ امورِ دنیا میں مخلوق سے اس طرح کی فریاد رسی چاہنا بلا اختلاف جائز ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی کسی کا کچھ کام کر دے، پتھر ڈھو دے یا کسی دشمن کے بیچ میں حائل ہو جائے یا کسی درندہ جانور کو یا چور اچکے کو دفع کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ﴾ [القصص: ۱۵] [پھر جو شخص موسی کی قوم کا تھا، اس نے اس شخص کے مقابلے پر، جو اس کے دشمن گروہ سے تھا، موسی سے فریاد چاہی] دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ ﴾ [الأنفال: ۷۲] [اور اگر وہ تم سے دین میں مدد چاہیں تو تم پر مدد کرنا واجب ہے] ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی﴾ [المائدۃ: ۲] [نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو] رہا وہ کام جس پر اللہ کے سوا کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے، جیسے مریض کو شفا دینا، بارش برسانا، گناہ بخشنا اور رزق میں کشادگی ہونا وغیرہ تو اس قسم کے کاموں میں اللہ کے سوا کسی سے فریاد نہیں کرنی چاہیے۔ اہلِ علم نے کہا ہے کہ ہر مکلف بندے پر واجب ہے کہ یہ بات جان رکھے کہ اللہ
Flag Counter