Maktaba Wahhabi

115 - 548
عرس کرنا، دور سے چل کر قبر پر آنا، اپنے پیروں درویشوں کی بات کو ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ماننا، ان کی تعظیم میں مبالغہ اور پیر بھائی کو عاملین بالحدیث ومتبع سنت سے زیادہ عزیز رکھنا، پیر کے کہنے سے تقلید کو اچھا اور اتباع کو بُرا سمجھنا۔ یہ سب راستے صراطِ مستقیم اور قرآن وحدیث کے خلاف ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی راہ کافر کر دیتی ہے اور کوئی بدعتی اور کوئی فاسق اور کوئی جاہل بنا دیتی ہے۔ اللہ کی ناپسندیدہ ان تمام باتوں سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اطاعتِ رسول کی اہمیت وفرضیت: یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ بندہ اللہ کا دوست دار ہو اور اللہ بندے کا دوست دار ہو۔ یہ نعمت اس کے بدوں نہیں مل سکتی ہے کہ بندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو۔ اس کی دلیل قطعی یہ ہے: ﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ [آل عمران: ۳۱] [آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا] اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی نہ کرے اور پھر اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا ہے، اور جو سنت کے موافق کام کرے اور اعتقاد رکھے، اس کی محبت اللہ سے سچی ہے اور وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اس آیت میں اتباع کرنے کا صریح امر ہے۔ اتباع حدیث پر عمل کرنے کو کہتے ہیں اور تقلید دوسرے کی راے پر چلنے کو کہتے ہیں۔ اس اتباع کو دوسری آیت میں بہ لفظ اطاعت تعبیر کیا اور فرمایا ہے: ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾ [آل عمران: ۳۲] [ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا ہے] اس آیت میں وہ وعید شدید ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے، کیونکہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ترک کرنے پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس کے سوا نہیں ہو سکتی ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح پر فرمایا ہے اس کو قبول کرے اور اس کے خلاف کوئی قول صادر نہ ہو، کیونکہ اس اطاعت سے اعراض کرنا کفار کی شان ہوتی ہے نہ کہ اہلِ ایمان کی۔ جب حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter