Maktaba Wahhabi

390 - 548
(( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَّذِرَاعًا بِذِرَاعٍ )) [1] [تم لوگ پہلی امتوں کے طریقے پر چلوگے، بالکل اس طرح جیسے ایک بالشت دوسرے بالشت اور ایک بازو دوسرے بازو کے برابر برابر ہوتا ہے] جو لوگ دین کے چور، شرع کے مفسد اور توحید کے دشمن ہیں، ان کی مذمت پر قرآن وحدیث دونوں متفق ہیں۔ جس کو اللہ نے عقلِ مستقیم اور قلبِ سلیم دیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی حمد کرے کہ اسلام جیسی نعمت سے اس نے نوازا ہے۔ اسے اگر کوئی مشکل پیش آئے تو اہلِ ذکر سے دریافت کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [النحل: ۴۳] [اگر نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو] مذکورہ آیت میں ’’اہلِ ذکر‘‘ سے مراد اہلِ قرآن وحدیث ہیں۔ مدحِ رسالت میں غلو: بعض شعرا وغیرہ نے مدحِ رسالت میں ایسا مبالغہ اور استغاثہ کیا ہے، جو حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مداح نبوت ہیں، حالانکہ وہ شرکِ خفی میں بلکہ جلی میں جاگرے ہیں، جیسا کہ صاحبِ قصیدہ بردہ نے کہا ہے: یا أکرم الخلق ما لي من ألوذ بہ سواک عند حدوث الحادث العمم [اے مخلوق میں سب سے بزرگ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) عام مصیبت نازل ہونے کے وقت میرے لیے آپ کے سوا کوئی جاے پناہ نہیں ہے] ’’قصیدہ ہمزیہ‘‘ میں بھی اس طرح کی بہت سی کارروائی ہوئی ہے۔ فارسی اور اردو میں مبالغہ اور غلو حد سے زیادہ کر دیا گیا ہے۔ تعجب ہے کہ کیا نعتِ رسول شرک کے ارتکاب کے بغیر ادا نہیں ہو سکتی ہے ؟ کیا شرک قول میں نہیں ہوا کرتا ہے؟ آیا وہ صرف فعل ہی میں ہوتا ہے ؟ در حقیقت اس
Flag Counter