Maktaba Wahhabi

241 - 548
ان صفات قدیمہ سے موصوف ہونے پر متفق ہیں، جن صفات کا ثبوت یا تو قرآن مجید سے ملتا ہے، وہ قرآن جس کے پس و پیش میں باطل کا گزر نہیں، یا پھر ان کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث سے ہوتا ہے جو صحیح اور قابل اعتماد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حقِ تبلیغ سے کما حقہ فارغ ہو چکے ہیں اور راہِ ہدایت کو کچھ اس طرح روزِ روشن کی طرح واضح فرما گئے ہیں کہ کسی ملحد کو اس میں بات کرنے کی جراَت ہے نہ کسی مخالف کے لیے کوئی دم مارنے کی گنجایش۔ الغرض اہلِ حق اور اہلِ حدیث اللہ تعالیٰ کے ان اسما و صفات پر ایمان لائے ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہیں اور وہ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہیں۔ وہ ان میں کسی طرح کی تاویل کرتے ہیں جو تعطیل اور انکارِ صفات کو مستلزم ہو اور نہ ایسی تشریح کرتے ہیں جو ذاتِ باری کی تشبیہ اور تمثیل کی خبر دیتی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا اہلِ سنت پر یہ بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے ان کو آیات کی تحریف و تاویل اور کیفیتِ صفات کی تشریح سے بچا لیا ہے، جس میں افراط و تفریط کا اچھا خاصا دخل ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے انھیں صحیح فہم و ادراک کی توفیق بخشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شاہراہِ تنزیہ اور توحید کو طے کر گئے اور تعطیل و تشبیہ سے محفوظ رہے ہیں۔ صفاتِ الٰہیہ کے بارے میں اہلِ سنت کا بنیادی محلِ استدلال: اس بارے میں اہلِ سنت نے اس ارشادِ باری تعالیٰ کا اتباع کیا ہے: 1۔﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ [الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں] 2۔﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ [الإخلاص: ۴] [اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے] ان آیتوں نے ذاتِ باری تعالیٰ کی صفات و افعال کے متعلق مماثلت کے خیال کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ یہ طریقہ کار ان کو یوں کفایت کر گیا ہے کہ سنت نبویہ کی موجودگی میں ردی قسم کی بدعات کی طرف کبھی ان کی نگاہ بھی نہیں اٹھتی ہے۔ اسی کی بدولت ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے بڑے مرتبے حاصل ہوئے ہیں۔ رضی اللّٰہ عنھم و أرضاھم و جعل الفردوس نزلھم و مأواھم۔ ٭٭٭
Flag Counter