Maktaba Wahhabi

520 - 548
نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا، انھیں کاموں میں سے ہے جنھیں اللہ نے خاص اپنی تعظیم کے لیے مقرر کیا ہے، اس لیے ذبح اسی کے نام پر کرنا چاہیے۔ کسی اور کے نام پر ذبح کرنا شرک ہے اور ذبح کرنے والا ملعون ہے۔ ظاہر آیت: ﴿وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ [البقرۃ: ۱۷۳] [اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے] بھی یہی ہے کہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے، خواہ ذبح کے وقت اللہ پاک ہی کا نام کیوں نہ لیں، اس لیے کہ عمل کا اعتبار نیت پر ہوتا ہے۔ جب نیت غیر اللہ کی ہوئی تو ظاہر میں اللہ کا نام لینے سے کیا کام بنے گا؟ ذبح ایک عبادت ہے اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت حلال نہیں ہے، بلکہ شرک ہے، اس لیے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والا مشرک ہو جاتا ہے اور وہ ذبیحہ بھی حرام ہو تا ہے، خواہ کسی صالح کے لیے ذبح کیا گیا ہو یا غیر صالح کے لیے۔ حرمت وخباثت میں دونوں صورتیں برابر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں۔ امام ابراہیم مروزی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ سلطان کے استقبال کے وقت اس کے تقرب کی خاطر جانور ذبح کرنا اہلِ بخارا کے نزدیک حرام ہے، اس لیے کہ یہ بھی ﴿وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ میں داخل ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ غیر اللہ کے لیے ذبح اور قربانی کرنے والا ملعون ہے اور وہ ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہے،اس کا کھانا حرام ہے۔ نذرِ اصنام: بتوں اور کسی بھی غیر اللہ کے لیے نذر ماننا اور نیاز دینا شرک ہے، چنانچہ طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک مکھی کے سبب سے ایک آدمی جنت میں گیا اور دوسرا دوزخ میں۔ صحابہ کرام نے پوچھا: کس طرح؟ فرمایا: دو آدمیوں کا گزر ایک قوم پر ہوا تھا، وہاں ایک بت تھا۔ کوئی شخص کسی شے کا نذرانہ دیے بغیر اس بت سے تجاوز نہ کرتا، یعنی جب تک اس بت پر کوئی چیز چڑھاتا یا نذر نہ کرتا آگے نہ بڑھتا۔ مجاوروں نے دونوں آدمیوں میں سے ایک سے کہا کہ نذرانہ پیش کرو۔ ایک نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ مکھی ہی اس کی نذر کرو، اس نے ایک مکھی نذر کی تو اس کو قوم نے چھوڑ دیا۔ وہ آدمی جہنم میں گیا۔ دوسرے آدمی سے کہا کہ کچھ نذر کرو۔ اس نے کہا: میں اللہ کے سوا کسی کو کوئی چیز
Flag Counter