Maktaba Wahhabi

117 - 548
پڑھنا، نماز عید کے بعد معانقہ ومصافحہ کرنا، نعش کی چارپائی کو منحوس سمجھنا، کفن کے ساتھ جانماز لے جانا۔ اس کے علاوہ بے شمار رسوم ہیں۔ احداث فی الدین کی ممانعت: 5۔حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں مرفوعاً مروی ہے: (( مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ )) [1] [جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے] ’’نیل الاوطار‘‘ میں کہا ہے کہ اس جگہ امر سے مراد وہ کام ہے جس پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور رد کا معنی مردود ہے۔ یہ حدیث من جملہ قواعدِ دین کے ہے۔ اس کے نیچے اتنے احکام مندرج ہیں جن کا حصر نہیں ہو سکتا۔ یہ حدیث بدعت کی کئی اقسام بنانے والے فقہا کے فعل باطل کے خلاف واضح اور روشن دلیل ہے اور بلا تخصیص ہر بدعت کا رد کرتی ہے یہاں نہ کوئی تخصیص عقلی ہے نہ نقلی۔[2] امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کو یاد رکھنا اور ابطالِ منکرات میں استعمال کرنا چاہیے۔ اس استدلال کی اشاعت بڑی مناسب ہے۔ طوفی نے کہا ہے کہ اس حدیث کا نام اگر نصف ادلہ شرع رکھا جائے تو نہایت مناسب ہے۔ انتھیٰ۔[3] اس حدیث میں احداث کو مردود فرمایا ہے۔ یہ احداث اہلِ علم کے نزدیک دو طرح پر ہے۔ ایک وہ جس کی حاجت زمانہ سلف میں نہ تھی، لیکن اس کے بعد اس کی ضرورت پڑی اور وہ اشارۃ النص کے ساتھ ثابت ہے، جیسے صرف ونحو، اعرابِ قرآن کا حدوث اور علم فقہ واصول وغیرہ کی تالیف۔ یہ چیزیں اپنی نظیر وغیرہ کے وجود کے سبب بدعت نہیں ہیں اور نہ ان سے دین کی کوئی خرابی اور کسی سنت کا رفع پایا گیا ہے۔ دوسرا وہ احداث ہے جو اس زمانے میں بے انکار جاری نہ ہوا، جیسے اس وقت بھی لوگ مرتے تھے مگر تیجا، دسواں، چالیسواں، فاتحہ وغیرہ نہ ہوتا تھا یا نکاح ہوتے تھے مگر سا چق،[4] آتش بازی،
Flag Counter