Maktaba Wahhabi

286 - 548
جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے نفع مند علم اور کامل فہم سے نواز رکھا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اجتہاد کا دروازہ بھی کھول دیا ہے، مگر مقلدین کے وہم و خیال میں یہ امر بالکل محال ہے۔ اصول و فروع میں تقلید مطلقاً ناجائز اور حرام ہے: شرعی مسائل میں تقلید کرنا، خواہ وہ مسائل اصلی ہوں یا فرعی، مطلقاً ناجائز ہے۔ امام ابنِ حزم رحمہ اللہ نے بہ دلیلِ اجماع تقلید کا ممنوع ہونا ثابت کیا ہے۔[1] علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’القول المفید‘‘ اور ’’أدب الطلب‘‘ وغیرہ میں تقلید کی ممانعت میں چاروں اماموں کے اقوال نقل کیے ہیں، جن میں انھوں نے اپنی اور غیروں کی تقلید سے صراحتاً منع کیا ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ بالفرض تقلید کی ممانعت پر اجماع نہ بھی ہو تو جمہور کے نزدیک تو اس کے حرام ہونے پر کچھ کلام ہی نہیں ہے۔ اس کی تائید اس اجماع سے ہوتی ہے جس میں منقول ہے کہ مُردوں کی تقلید بالکل ناجائز ہے۔ نیز اس کی تائید اس اجماعی مسئلے سے بھی ہوتی ہے کہ مجتہد کا قیاس اور رائے پر عمل کرنا جب کہ اسے کتاب و سنت سے کوئی دلیل دستیاب نہ ہو، بہ حکم ضرورت صرف اسی کے لیے جائز ہے اور دوسروں کے لیے ناجائز۔ اس کے متعلق قاضی شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’إرشاد الفحول‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ان دو اجماعوں سے تقلید کی جڑ کٹ گئی۔ انتھیٰ۔[2] عامی شخص پر، جو قرآن و حدیث سے واقفیت نہیں رکھتا ہے، خاص مذہب کا التزام ضروری نہیں ہے۔ ابن برہان اور نووی رحمہا اللہ کا مختار مسلک یہی ہے۔ مقلد کا ایمان، جو اپنے پاس کسی طرح کی حجت نہیں رکھتا، صحیح و مقبول ہے۔ اجماع کی حیثیت: جو اجماع قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو، وہ استدلال کے لائق نہیں ہے اور جس کی اصل قرآن و حدیث میں ہو اس سے سند لینا، ان لوگوں کے بہ قول جو اجماع کو حجت کہتے ہیں، درست ہے۔ اجماع بھی مجتہدین کا معتبر ہے نہ کہ مقلدین کا۔ فرقہ ناجیہ: ہر گروہ اور فرقے کا یہ گمان ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ ہی نجات پائیں گے اور باقی سب
Flag Counter