Maktaba Wahhabi

365 - 548
لیا، پھر ہاتھ ہلا کر فرمایا: ’’نہ جہاد نہ صدقہ، پھر کیسے تم جنت میں جاؤ گے؟‘‘ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں ان سب باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتاہوں۔ ‘‘[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حصولِ توحید کے ساتھ نماز، روزے اور حج کی طرح جہاد وصدقہ بھی دخولِ جنت کے لیے شرط ہے۔ مطلب یہ کہ عمل صالح کے بغیر جنت نہیں ملتی ہے۔ صدیق حسن بلا ست سر مستی تو خود نیست برابر ست با ہستی تو [صدیق حسن! تمھاری مدہوشی مصیبت ہے، تمھاری ہستی اور نیستی برابر ہے] بے نقد عمل کس نفروشد جنت ہیہات ہیہات از تہی دستی تو [نقد عمل کے بغیر کوئی شخص جنت نہیں خریدے گا۔ افسوس! افسوس! تمھاری ناداری پر] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’مجھے حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘[2] اقرارِ شہادتین کے ساتھ دیگر فرائض کے انکار کی سزا: اس حدیث سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کی ایک جماعت نے یہ سمجھا ہے کہ اقرارِ شہادتین سے دنیوی سزا ختم ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے انھوں نے مانعینِ زکات سے قتال کرنے میں توقف کیا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ ان سے قتال ممنوع نہیں ہے، مگر اس وقت جب وہ اسلام کے حقوق ادا کریں تو ممنوع ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلیل ہے: (( فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّيْ دِمَائَ ھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ إِلَّا بِحَقِّھَا )) [3] [جب لوگ کلمے کا اقرار اور نماز و زکات ادا کریں گے تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا، مگر اس کے حق کے بدلے]
Flag Counter