Maktaba Wahhabi

571 - 548
بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ )) [1] (رواہ أحمد) [تم ہر گز کوئی فرض نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑو، کیونکہ جو شخص کوئی فرض نماز قصداً چھوڑ دیتا ہے تو اس سے اللہ کا ذمہ بری ہو جاتا ہے] یعنی ایک فرض نماز دیدہ و دانستہ ترک کردینے سے اللہ کا ذمہ اس شخص سے بری ہو جاتا ہے۔ دوسری حدیث میں قصداً ترکِ نماز کو کفر فرمایا ہے۔[2] پھر اسی ترک کو تیسری حدیث میں مومن اور کافر کے درمیان فارق ٹھہرایا ہے۔[3] پس جو حکم قصداً ترکِ نماز کا ہے وہی حکم صوم و زکات و حج کو قصداً ترک کرنے والے کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح خلافِ توحید سے شرک ثابت ہوتا ہے، اسی طرح ترکِ عملِ صالح سے کفر در آتا ہے اور جس طرح شرک کی جزا خلودِ نار ہے، اسی طرح ترکِ عمل کی جزا دخولِ نار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ قرآن پاک میں ایمان کے ساتھ عملِ صالح کی قید لگائی اور ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ﴾ فرمایا ہے، پھر جب ان اعمالِ صالحہ کے مجرد ترک پر یہ شدید وعید وارد ہے تو پھر عمل غیر صالح کے ارتکاب پر خدا حافظ ہے، جیسے ان کبائر ظاہرہ کا ارتکاب جو جوارح سے تعلق رکھتے ہیں، اسی لیے قرآن وحدیث میں اکثر کبائر کے مرتکب پر تکفیر کا حکم لگایا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ شہادتین کا تارک مشرک ہے اور اعمالِ اسلام کا مستقل طور پر ترک کرنے والا، نیز بعض کبائر کے ارتکاب پر اصرار کرنے والا کفر کے دام میں پھنس جاتا ہے، پھر جس کی سیئات زیادہ اور حسنات کم ہیں، وہ جہنم کا حق دار ہوتا ہے اور جس کی حسنات زیادہ اور سیئات کم ہیں، وہ مغفور ہو سکتا ہے۔ ایمان: دینِ حق کا دوسرا جز ایمان ہے۔ اس کی تعریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : (( أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ )) [4] [ایمان یہ ہے کہ دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے
Flag Counter