Maktaba Wahhabi

162 - 548
’’جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو بنایا تو ان کے داہنے کندھے پر مار کر ان کی سفید اولاد چیونٹیوں کی طرح نکالی اور بائیں کندھے پر مار کر کالی اولاد کوئلے کے مثل نکالی، پھر دا ہنی طرف کی اولاد کو کہا کہ یہ جنت میں جائے گی اور مجھے کچھ پروا نہیں، پھر بائیں طرف کی اولاد کو کہا کہ یہ دوزخ میں جائے گی اور مجھے کچھ پروا نہیں۔‘‘ اس کو احمد نے روایت کیا ہے۔[1] معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کے وقت ہی بہشتی اور دوزخی ٹھہرا کر کہہ دیا تھا: (( لا أبالي ))یعنی میں مالک ہوں، جو چاہوں سو کروں۔ 15۔حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں فرمایا ہے: ’’اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگ بنائے جو اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور کچھ لوگ دوزخ کے لیے بنائے جو اپنے باپوں کی پیٹھ میں تھے۔‘‘ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔[2] یعنی دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے جس کو جس لائق سمجھا ویسا ہی ٹھہرا دیا۔ اب اسی کے موافق ہوتا ہے۔ بہشتی سے اچھے کام اور دوزخی سے برے عمل ظہور میں آتے ہیں، اب دنیا میں جنتی اور ناری کی شناخت یہی ہے، وللّٰہ الحمد۔ پیدایش کا مرحلہ اور تقدیر: 16۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ سچے سچائے تھے کہ ہر کسی کی خلقت اس کی ماں کے پیٹ میں اکٹھی کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے، پھر چالیس دن تک خون بستہ، پھر اتنے ہی دن لوتھڑا، پھر اس کے پاس چار چیزوں کے ساتھ ایک فرشتہ آتا ہے، جو اس کا عمل واجل، اس کا رزق اور یہ کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت، لکھ دیتا ہے، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ سو قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ بے شک تم میں کوئی اہلِ جنت کا کام کیے جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور بہشت کے درمیان ایک ہاتھ کا فرق رہ جاتا ہے، پھر اس پر کتاب سبقت کرتی ہے تو وہ اہلِ نار سا کام کرنے لگتا ہے، پھر آگ میں جاتا ہے اور تم میں کوئی اہلِ نار کا کام کیے جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان فرق نہیں
Flag Counter