Maktaba Wahhabi

478 - 548
کواکب کی تاثیر سے ہیں تو ایسا شخص اللہ کے نزدیک اللہ کا منکر اور ستارہ پرستوں میں شامل ہے۔ اس کے مقابل جس کا ایمان یہ ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اللہ کا مقبول بندہ ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مبارک اور منحوس ساعتوں پر اور سعادت ونحوست کی تاریخوں کے لحاظ واہتمام پر ایمان رکھنا اور نجومی کی بات پر یقین کرنا شرک جلی ہے۔ جس کسی نے یہ اعتقاد کیا کہ ان امور کا تعلق نجوم سے ہے تو وہ ستارہ پرستوں میں شامل ہو گیا اور وہ شخص اللہ کا منکر اور کواکب ونجوم پر ایمان لانے والا ٹھہرا اور موحدین کی جماعت سے خارج ہوگیا۔ فتح المجید میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بارش کے انزال میں کواکب و انوا کی تاثیر کا اعتقاد رکھنا شرک فی الربوبیۃ ہے اور اگر یہ اعتقاد نہیں، بلکہ کواکب کی طرف انتساب ہے تو شرک اصغر ہے، اس لیے کہ اس نے اللہ کی نعمت کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ اللہ نے نوء (نچھتر) کو نزولِ باراں کا سبب نہیں بنایا ہے، بلکہ بارش تو محض اس کے فضل سے نازل ہوتی ہے، چاہے برسائے اور چاہے تو روک دے۔ دیکھو! تارہ موجود ہوتا ہے، پھر بھی کبھی بارش کیوں نہیں ہوتی؟ ایامِ قحط میں اس کی تاثیر کہاں چلی جاتی ہے؟[1] توحید کا معنی: توحید کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے افعال کو ہرگز غیر کی طرف برسبیل مجاز بھی منسوب نہ کرے۔ بعض علما نے کہا ہے کہ غیر اللہ کی طرف نعمت کی نسبت کفر ہے، اسی لیے اس نسبت کو حرام کہا ہے، اگرچہ وہ انواء و کواکب کی تاثیر کا قائل نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَھَا﴾ [النحل: ۸۳] [یہ لوگ اللہ کی نعمت کو خوب پہچانتے ہیں، پھر اس کو نہیں مانتے ہیں] دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿فَلآَ اُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ﴾ [الواقعۃ: ۷۵] [میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کی جگہوں کی] ان آیتوں میں علم نجوم کی تردید ہے، کیونکہ آخر میں کہا ہے:
Flag Counter