Maktaba Wahhabi

125 - 548
یا اہلِ سنت نے ان کے لیے ان کے احداث کی مناسبت سے رکھا ہے، جیسے معتزلہ، شیعہ، مرجیہ وغیرہ۔ جو کوئی کسی فقہی اجتہاد یا فرعی قیاس یا فلسفی راے یا ہواے بدعی یا شرکی اعتقاد یا لطیفۂ تصوفی کو کسی ادنا سنتِ صحیحہ پر مقدم کرتا ہے وہ فرقۂ ناجیہ سے خاج ہو جاتا ہے اور وہ ترکِ سنت ومفارقتِ جماعت کے سبب کسی طرح اہلِ سنت وجماعت میں نہیں ٹھہر سکتا ہے۔ اس نام کا مصداق تو وہی شخص ہوگا جو سرِ مو سنت کے مخالف نہیں ہے اور سیرتِ سلف کا تابع ہے۔ وہ سیرت ان کی یہی اتباعِ قرآن وحدیث تھا۔ اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے بارے میں دشمنی ان کا بانا تھا۔ وہ ذاتِ الٰہی میں نہ کسی ملامت گر کے لوم سے ڈرتے تھے اور نہ کسی لایعنی امر میں خوض کرتے تھے، نہ دین حق میں کسی کے ایسے مقلد تھے کہ نصِ کتاب وسنت کے واضح ہونے کے باوجود اس کی بات پر چلیں اور اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف التفات نہ کریں۔ ان کے مدینۂ دل میں ’’رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘کے سوا کسی کی راے کی رعایت نہ تھی اور نہ کوئی نشان قرآنِ عظیم الشان کے نشان کے سوا تھا، لہٰذا اس نام کا سب سے زیادہ استحقاق انھیں کو ہے۔ تجدیدِ دین اور احیاے سنت: 11۔اسی لیے حدیثِ بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مر گئی ہے، اس کو اس حدیث کے عاملین کے مثل ان کے اجر کے نقصان کے بغیر اجر ہو گا اور جس نے کوئی بدعتِ ضلالت نکالی جس کو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے ہیں تو اس پر عاملین کے مثل ان کے گناہوں کے نقصان کے بغیر گناہ ہو گا۔‘‘ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔[1] یہ حدیث یہ بات سمجھاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سنن مرجائیں گی اور بدع ظاہر ہوں گی۔ سنت زندہ کرنے والے کو جملہ عمال کے برابر اجر ملے گا اور مبتدع کو جملہ عمال کے برابر گناہ ہوگا۔ 12۔اس کا ایضاح عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی حدیث سے یوں ہوتا ہے: (( إِنَّ الدِّیْنَ بَدَأَ غَرِیْباً، وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ، فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَائِ، وَھُمُ الَّذِیْنَ یُصْلِحُوْنَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِيْ مِنْ سُنَّتِيْ )) [2]
Flag Counter