Maktaba Wahhabi

486 - 548
صفر کی نحوست: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عدوی اور طیرۃ کے ساتھ صفر کا ذکر بھی آیا ہے۔ (رواہ البخاري) [1] صفر سے مراد سانپ ہے۔ اہلِ عرب کا گمان یہ تھا کہ جب آدمی بھوکا رہتا ہے اور کھانے سے پیٹ نہیں بھرتا تو اس کے پیٹ میں ایک سانپ پیدا ہو کر اس کو ستاتا ہے اور وہ متعدی ہو جاتا ہے۔ یا اس سے مراد تاخیر ہے، یعنی ماہِ صفر کو محرم کا مہینا قرار دینا۔ یہ بھی جاہلیت کا فعل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ مہینا منحوس ہے۔ عرب کے جاہلوں میں یہ مشہور تھا کہ مرض جوع الکلب، جس میں آدمی خوب کھاتا ہے مگر شکم سیر نہیں ہوتا، میں کوئی شیطان یا بھوت جیسی بلا انسان کے پیٹ میں گھس جاتی ہے اور وہی کھاتی چلی جاتی ہے، اسی کا نام صفر ہے۔ غرض کہ جو بھی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بد فالی سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح یہ اعتقاد رکھنا کہ ماہ صفر کے تیرہ دن منحوس ہیں اور اسی پر ان دنوں کا نام تیرہ تیزی ہے، یا فلاں ماہ یا فلاں تاریخ یا دن یا ساعت منحوس ہے اور اس میں آفت یا بلا نازل ہوتی ہے، یہ سب کھلا ہوا شرک ہے۔ جو کوئی ان چیزوں کا معتقد ہے، وہ مشرک باللہ ہے۔ غول کی نفی: حدیث میں غول (بھوت پریت) کی بھی نفی فرمائی ہے، لیکن غول کی ذات اور وجود کی نفی مراد نہیں ہے، بلکہ غول کے تصرف کے خیال و وہم کی نفی مراد ہے، یعنی جس کا اللہ پر توکل ہوتا ہے اور وہ اللہ کا ذاکر رہتا ہے، غول اس کا کچھ نہیں کر سکتے۔ غول کہتے ہیں جو صحرا و بیابان میں جن وشیاطین مختلف صورتوں اور بھیسوں میں لوگوں کے سامنے آکر انھیں ڈراتے بہکاتے ہیں۔ ان کا کام تلبیس وتخییل ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ہاں سفارشی بنانا: اللہ پاک کو اس کی مخلوقات میں سے کسی کے پاس سفارشی بنانا شرک ہے، چنانچہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ ایک اعرابی نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے پانی مانگیں، ہم آپ کو اللہ پر اور اللہ کو آپ پر سفارشی قرار دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! دیر تک یوں ہی فرماتے رہے، پھر کہا:
Flag Counter