Maktaba Wahhabi

217 - 548
تم پر بد دعا کروں کہ تمھاری صورت بدل جائیں۔ اس کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔[1] معلوم ہوا کہ مصیبت میں لباس کو ترک کرنا اور سریا پاؤں ننگے کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کفر کی رسم تھی۔ اسی طرح معمول کے لباس کا بدلنا حرام ہے، جیسے ماتم میں سیاہ کپڑے پہننا یا سیاہ پٹی بازو پر باندھنا یا خط اور لفافے کے کنارے کو سیاہ کرنا وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس دم بد دعا کرتے تو وہ لوگ بندر اور سور کی صورت ہو جاتے۔ معلوم ہوا کہ موت کے سبب چوڑیاں نہ پہننا، کپڑا نہ سینا اور چارپائی پر نہ سونا رسم کفر ہیں، اسی طرح تیجا، دسواں، چالیسواں، چھ ماہی، برسی کرنا اور شبِ برائت کے روز مُردوں کا غم تازہ کرنا؟ یہ سب ہنود کی رسمیں ہیں۔ ساتویں رسم: زینت اور بناؤ سنگار کرنا اور سیدھی سادھی وضع کو معیوب سمجھنا ہے۔ وہ آرایش جو شرعاً جائز ہے، جیسے قیمتی کپڑا پہننا، اچھے برتن میں کھانا، اچھے مکان میں رہنا اور اچھی سواری پر سوار ہونا، وہ منع نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾ [الأعراف: ۳۲] [آپ فرما دیجیے کہ اللہ کے پیدا کیے گئے اسبابِ زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنائے ہیں اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے؟] بلکہ اگر یہ کام شکر کے واسطے ہو تو بہتر ہے۔ ہاں نام ونمود کے لیے یا تکبر کے لیے ہو تو حرام ومکروہ ہے، یا اس لیے نہ ہو مگر کفار، فساق اور اہلِ بدعت سے مشابہت ہو تو بھی منع ہے، اگرچہ کرنے والے کے ذہن میں مشابہت مقصود نہ ہو۔ 1۔حدیثِ نبوی ہے: (( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )) [2] [جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ ان ہی میں سے ہے]
Flag Counter