Maktaba Wahhabi

140 - 548
[کام نکال لے گئے وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور نکمی بات پر توجہ نہیں کرتے اور زکات دیا کرتے ہیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیںمگر اپنی بیویوں پر یا اپنی ملکیت کی لونڈیوں پر سو ان پر الزام نہیں پھر جو اس کے سوا ڈھونڈے سو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور اپنے قول وقرار کی پاسداری کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی ہیں میراث لینے والے جو فردوس بہشت کی میراث لیں گے یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے] اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وارثانِ فردوس کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ یہ سب پانچ وصف ہیں۔ ان وصف والوں کو ایمان والا فرمایا۔ خشوع سے مراد اخلاص ہے کہ تہہ دل سے نماز میں خاشع اور اللہ کی طرف دل لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ کے ڈر سے دبے جاتے ہیں اور کسی طرف اپنا وہم وخیال جانے نہیں دیتے اور نکمی بات پر کہ جس سے دنیا و دین کا کچھ فائدہ نہیں ہے، توجہ نہیں رکھتے اور مال کی زکات سال تمام ہونے پر ادا کرتے ہیں۔ اس کے دینے سے دل نہیں چراتے اور نہ تاخیر کرتے ہیں اور بی بی یا شرعی کنیز کے سوا کسی اور عورت سے آگاہ نہیں ہوتے۔ متعہ زنا، دوستی، جبر، جلق و اغلام اور نہ سحق کرتے ہیں۔ اپنی امانت اور بات کے پکے سچے ہیں اور نماز وقت پر بلا تاخیر ادا کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ اعلا درجے کی بہشت میں جائیں گے جس کو فردوس کہتے ہیں۔ غرض کہ حصولِ مراد اور وصولِ فلاح ان اوصافِ پنج گانہ کے وجود پر موقوف ہے۔ اس جگہ روزہ وحج کا ذکر نہیں آیا، کیونکہ ان کا ذکر دوسری آیت سے ثابت ہے اور لفظِ ایمان میں یہ سب کام داخل ہیں۔ ایمان کی دوسری علامت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ؎ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ؎ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ﴾ [الأنفال: ۲-۴] [ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر
Flag Counter