Maktaba Wahhabi

556 - 548
یہاں تک کہ خالص محبت کے ساتھ مقامِ توحید پر فائز ہوگا اور اس آیتِ شریفہ ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾ [البقرۃ: ۱۶۵] کا مصداق ہو جائے گا اور ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ﴾ [المائدۃ: ۵۴] کا کامل نمونہ بن جائے گا۔ اللھم اجعل حبک أحب الأشیاء إِلَيَّ وارزقني حب من تحبہ وحب عمل ترضاہ۔ [اے اللہ اپنی محبت کو میرے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب بنادے اور مجھے اپنے محبوب بندوں سے اور پسندیدہ عمل سے محبت کرنے کی مجھے توفیق دے] ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا﴾ [مریم: ۹۶] [بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے گا] ریاکاری: شرک کی راہوں میں ایک ریا ہے۔ یعنی اس قصد سے عبادت کا اظہار کرنا کہ لوگ اس کو دیکھیں سنیں، اس کی تعریف و توصیف کریں اور اس کے مداح و ستایش کناں رہیں، جیسے نماز، قراء تِ قرآن، وعظ و ارشاد اور عمل صالح کا چرچا کرنا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾ [الکھف: ۱۱۰] [جس کو اپنے رب سے ملنے کی امید ہو، اسے چاہیے کہ خلوص کے ساتھ اچھا کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے] اس آیت سے مقصود ریا کاری کی ممانعت ہے، کیونکہ عمل صالح وہی ہے جس میں دکھانے سنانے کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ کلامِ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب نکرہ سیاقِ نفی میں آتا ہے تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ یہاں عموم میں انبیا، ملائکہ، صلحا و اولیا وغیرہ سب شامل ہیں، یعنی کسی چھوٹی وبڑی مخلوق کو اللہ کی عبادت میں شریک نہ کریں۔ معلوم ہوا کہ عبادت میں انبیا و صلحا کی شرکت اگر شرک وریا ہے تو طالحین، جو معبودان باطلہ ہیں، چاہے حیوان ہوں یا جماد و نباتات، ان کی شرکت کا کیا ذکر ہے ؟ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عمل صالح وہ ہے جو ریا سے صاف اور سنت کے ساتھ مقید ہو۔ [1]
Flag Counter