Maktaba Wahhabi

445 - 548
بندے پر اللہ کا فضل واحسان ایسا ہے جیسے کوئی بندہ کسی بندے پر صدقہ کرتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ بندے کو اس عمل کی جو اجرت دیتا ہے، وہ بندے کے لیے اس فضل واحسان سے بہتر ہے جو بلا عمل کے عطا کرتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جزا میں اعمال کی کوئی تاثیر نہیں ہوتی۔ بہر حال یہ دونوں گروہ (جبریہ وقدریہ) صراطِ مستقیم سے منحرف ہیں، کیونکہ اعمال حصولِ ثواب کے اسباب ہیں۔ اعمالِ صالحہ کا ہونا محض اللہ کی توفیق وفضل سے ہوتا ہے، یہ اسباب جزا وثواب کا پیمانہ نہیں ہیں، بلکہ جب یہ اعمال کامل طور پر انجام پاتے ہیں تو اللہ کی ایک ادنا نعمت کا شکر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر سارے اہلِ آسمان وزمین کو عذاب کرے، تب بھی وہ ظالم نہیں ہوگا اور اگر ان سب پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے عمل سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ فرمایا: ﴿اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ [المائدۃ: ۱۱۸] [اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دے توبیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے] ایک اعتراض کا جواب: پہلی آیت شریفہ میں بتایا ہے کہ جنت کی وراثت عمل کے سبب ہے، جبکہ حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے عمل کے سبب جنت میں نہیں جائے گا۔[1] گذشتہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ جنت عمل سے نہیں ملتی اور حدیث اس کی نفی کرتی ہے۔ لیکن اس آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ اثبات اور نفی کا محل ایک نہیں ہے۔ یعنی اثبات اس امر کا ہے کہ جنت کا استحقاق اعمال سے ہے اور نفی اس بات کی ہے کہ جنت اور اجر وثواب اعمال کی قیمت ہیں۔ اس میں قدریہ مجوسیہ کا رد ہے، جن کو یہ زعم ہے کہ اعمال کے لیے کوئی تاثیر نہیں ہوتی۔ بائے موحدہ مثبتہ جو قرآن میں آئی ہے، وہ بائے سببیہ ہے۔ اس میں قدریہ جبریہ کا بھی رد ہے، جن کا قول یہ ہے کہ اعمال اور جزا کے درمیان کوئی ربط ہے نہ یہ اعمال جزا و ثواب کے اسباب ہیں۔ غایت درجہ یہ ہے کہ اعمال ایک علامت ونشان ہیں۔ سنتِ نبویہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ
Flag Counter