Maktaba Wahhabi

359 - 548
حدیثِ غربا: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیْباً، وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ ))(أخرجہ مسلم) [اسلام اجنبیت کے عالم میں شروع ہوا اور پھر ایسے ہی لوٹ آئے گا جیسے شروع ہوا تھا، پس خوشی ومسرت ہو ان کے لیے جو اجنبی ہیں] اس جگہ اسلام سے توحید مراد ہے۔ ابتدا میں یہ توحید بہت کم یاب تھی، پھر اسی طرح آخر زمانے میں کم یاب ہوجائے گی۔ غریبوں کے لیے خوش ہونے کی بشارت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ فسادِ امت کے وقت توحید پر قائم رہیں گے، ان کی مغفرت ہوگی، وللّٰہ الحمد۔ دعوتِ توحیدِ باری تعالیٰ کا منہج: دعوتِ توحید شہادتین کی طرف بلانے سے عبارت ہے، جیسا کہ کتاب وسنت اور اہلِ علم کے اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ أَدْعُوْٓا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴾ [یوسف: ۱۰۸] [اے نبی! کہہ دیجئے کہ میری راہ یہ ہے، میں تم کو اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر بلاتا ہوں اور جو میری پیروی کرے، اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں] امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ یہ دعوت جس کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں اور دعوت کے جس طریقے پر میں قائم ہوکر بتوں اور باطل معبودوں کے چھوڑنے اور طاعتِ الٰہی تک پہنچنے، معصیت سے پرہیز کرنے اور خالص عبادت کرنے کی جو دعوت دیتا ہوں، یہی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی طرف میرے بلانے کا راستہ ہے۔ میں اس دعوت میں بصیرت اور علم ویقین پر ہوں، میں مشرک نہیں ہوں۔ انتہیٰ۔[1]
Flag Counter