Maktaba Wahhabi

317 - 548
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ثِنْتَانِ مُوْجِبَتَانِ، قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْمُوْجِبَتَانِ؟ قَالَ: مَنْ مَّاتَ لاَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَ مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ النَّارَ )) [1] (رواہ مسلم) [دو خصلتیں جنت اور جہنم کو واجب کرتی ہیں۔ ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! واجب کرنے والی دو چیزیں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک نہیں کرتا رہا تو وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کی موت اس حالت میں ہوئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرتا رہا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا] اسی طرح جو شخص کلمے کے دوسرے جملے (( أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ))کا قائل ہے، مگر کسی بدعت میں اعتقاداً یا عملاً گرفتار ہے تو وہ بھی پورے طور پر رسالت کی تصدیق کرنے والا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اگر وہ بدعت اس طرح کی ہے کہ کفر تک نہیں پہنچاتی ہے تو وہ بدعتی اس بدعت وضلالت کے مطابق جہنم میں رہ کر مقرر عذاب پاکر نجات پائے گا، لیکن اگر وہ بدعت ایسی ہے جو قرآن یا حدیث کی نصِ قطعی کے صریح خلاف ہے تو اس کی نجات کی کوئی صورت معلوم نہیں ہوتی ہے۔ سببِ تالیف: اس رسالے میں نہایت اختصار سے توحیدِ خالص کی اقسام اور انواعِ شرک کو ذکر کیا گیا ہے، تاکہ توحیدِ خالص کی حقیقت بہ خوبی سمجھ میں آجائے۔ اس رسالے کا نام ’’دعایۃ الإیمان إلی توحید الرحمن‘‘ رکھا گیا ہے اور اس تحریر و تقریر کا اولین مقصد اپنی اولاد و احفاد کی تعلیم ہے، پھر ان لوگوں کی راہنمائی کرنا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ ہدایت اور بھلائی اختیار کرنے کی توفیق بخشے۔ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ اپنے قول وفعل اور حال کو اس کتاب کے مضامین ومقاصد پر پیش کرکے موازنہ کرے اور دیکھے کہ وہ کس قسم کا مسلمان ہے؟ محض وہ زبان سے اسلام لایا ہے یا تہِ دل سے ایمان والا ہے؟ اگر دل سے ایمان لایا ہے تو وہ کیسا دل ہے جو اس تصدیق وایمان کے باوجود کلمہ طیبہ کے مضمون و مقصد کے خلاف عمل کرتا ہے اور اس کو اپنے دین و ایمان کے لیے مضر نہیں جانتا ہے۔ اگر فقط
Flag Counter