Maktaba Wahhabi

540 - 548
مالک کی مرضی سے ہوتی ہے، اسی قسم کی شفاعت اللہ کی جناب میں ہو سکتی ہے۔ جس نبی اور ولی کی شفاعت کا ذکر قرآن و حدیث میں مذکور ہے، اس کے معنی یہی ہیں، اس لیے ہر بندے کو چاہیے کہ ہر دم اللہ ہی کو پکارے، اسی سے ڈرتا اور التجا کرتا رہے، اسی کے رو برو اپنے گناہوں کا قائل رہے، اسی کو اپنا مالک اور حمایتی سمجھے، جہاں تک خیال دوڑائے اللہ کے سوا کہیں اپنے لیے پناہ نہ جانے اور کسی کی حمایت پر بھروسا نہ کرے، کیونکہ وہ خود بڑا غفور رحیم ہے، سب مشکلیں اپنے ہی فضل سے کھول دے گا۔ سب گناہ اپنی ہی رحمت سے بخش دے گا اور جن کو چاہے گا، اپنے حکم سے اس کا شفیع بنا دے گا۔ غرض کہ جیسے اپنی ہر حاجت اس کو سونپنا چاہیے، اسی طرح حاجتِ شفاعت بھی اسی کے اختیار پر چھوڑ دی جائے، وہ جس کو چاہے ہمارا شفیع کر دے، ایسا نہ ہو کہ ہم کسی کی حمایت پر بھروسا کر بیٹھیں، اس کو اپنی حمایت کے لیے پکاریں، اس کو اپنا حمایتی سمجھ کر اصل مالک کو بھول جائیں اور اس کے اَحکام کو بے قدر کرکے اپنے خود ساختہ حمایتی کی راہ و رسم کو مقدم سمجھیں جو بڑی قباحت والی بات ہے اور سارے نبی اور ولی اس سے بے زار ہیں۔ وہ ہرگز ایسے لوگوں کے شفیع نہیں بنتے، بلکہ اس سے ناراض ہوتے اور الٹے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، کیونکہ ان کی بزرگی یہی تھی کہ اللہ کی رضا کو اپنی بیوی، بیٹے، مرید، شاگرد، نوکر، غلام، دوست اور واقف کار سب کی خوشی پر مقدم رکھتے تھے۔ جب یہ لوگ اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ کرتے تھے تو وہ ان کے دشمن ہو جاتے تھے، پھر یہ پکارنے والے لوگ ایسے کون سے چہیتے ہیں کہ وہ بزرگ لوگ ان کے حمایتی بن کر اللہ کی مرضی کے خلاف ان کی طرف سے اللہ کے حضور میں جھگڑنے بیٹھیں گے؟ بلکہ بات تو یوں ہے کہ ’’الحب اللّٰہ و البغض اللّٰہ ‘‘ ان کی شان ہے، جس کے حق میں اللہ کی مرضی یہ ہوگی کہ اس کو دوزخ میں بھیجے تو وہ اسے دو چار دھکے اور دینے کو تیار ہیں۔[1] تنبیہ: اس مضمون کے بارے میں بعض نادانوں نے اعتراض کیا تھا، جس کا جواب خود صاحبِ کتاب نے کتاب و سنت کی روشنی میں فارسی میں لکھا۔ [2] اس کے علاوہ موحدین کی ایک جماعت نے ہر مطلب کی دلیل شرعی دلائل سے ثابت کر دی ہے۔ ہماری کتاب ’’دین خالص‘‘ ان سب دلائل کی جامع ہے۔
Flag Counter