Maktaba Wahhabi

296 - 548
انھیں انوار سے روشنی کا خواہاں ہوں۔ میں اپنے دوستوں اور بھائیوں کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اس راہ سے نہ بہکیں اور اغیار کے اقوال نہ دیکھیں۔ وہ ان بدعات و محدثات میں مبتلا نہ ہوں جو مسلمانوں میں رائج ہو چکے ہیں، کیونکہ محدثین کے زمانے میں بدعات مروجہ میں سے کوئی ایک بھی بدعت کسی کی زبان پر آتی تو وہ اس شخص کو قطعاً چھوڑ دیتے، اسے بدعتی کا لقب دیتے، اسے جھوٹا کہتے اور اسے ہر طرح کی اذیت پہنچاتے۔ خبردار! اہلِ بدعت کی کثرت سے دھوکا نہ کھانا: میرے بھائیوں کو اہلِ بدعت کی کثرت اور زیادتی کسی دھوکے میں مبتلا نہ کرے، کیونکہ یہ تو قربِ قیامت کی علامات سے ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’علم کی کمی اور جہل کی زیادتی علاماتِ قیامت سے ہے۔‘‘[1] علم سے مراد سنت ہے اور جہل سے مراد بدعت۔ دورِ حاضر میں متمسک بالسنہ ہونے کا اجرو ثواب: اس زمانے میں جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پکڑے رکھے، اس پر استقامت کے ساتھ عمل کرے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرے تو اس کا اجر و ثواب ان لوگوں سے بڑھ کر بے حد و حساب ہو گا، جنھوں نے اول اسلام میں سنت کے مطابق عمل کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لیے پچاس آدمیوں کے برابر ثواب بتلایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت فرمایا: کیا آخر زمانے کے پچاس آدمیوں کے ثواب کے برابر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: نہیں، بلکہ تمھارے پچاس آدمیوں کے مثل اس کا اجر و ثواب ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجر و ثواب کا یہ وعدہ خاص اس شخص کے لیے ہے جو فسادِ امت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر قائم رہے۔[2] حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور اس کے تعلیم و تعلم کی فضیلت: امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ایک سنت کی تعلیم دو سو برس کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘ امام صابونی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’ایک روزابو معاویہ ضریر رحمہ اللہ خلیفہ ہارون الرشید کی مجلس میں حدیث بیان کر رہے تھے،
Flag Counter