Maktaba Wahhabi

366 - 548
اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’فإن الزکاۃ حق المال‘‘[1] [زکات مال کا حق ہے] پس جو بات ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سمجھی تھی، وہی بات صراحتاً نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور بہت سے صحابہ نے سمجھی تھی، جیسے سیدنا عبداللہ بن عمر اور انس رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ قرآن پاک بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَإِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ﴾ [التوبۃ: ۱۱] [اگر لوگ توبہ کر لیں اور نماز وزکات ادا کریں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں] یعنی دینی اخوت اسی وقت ثابت ہوگی جب لوگ فرائض ادا کریں، کیونکہ شرک سے توبہ توحید کے بغیر نہیں حاصل ہوتی اور توحید عمل صالح کے بغیر تمام نہیں ہوتی ہے، پس دخولِ جنت عمل صالح پر مبنی ہو ا۔ مذکورہ بالا احادیث کا صحیح مفہوم: ایک جماعت نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں فرائض وحدود کے نزول سے پہلے کی ہیں، مگر یہ قول بہت بعید ہے، اس لیے کہ یہ حدیثیں زیادہ تر مدینے میں نزولِ فرائض وحدود کے بعد فرمائی گئی تھیں اور بعض غزوۂ تبوک میں فرمائیں، جو حیاتِ نبویہ کے آخر میں واقع ہوا تھا۔ دوسرے گروہ نے کہا ہے کہ یہ احادیث منسوخ ہیں۔ تیسرے نے کہا کہ منسوخ نہیں بلکہ محکم ہیں۔ چوتھے گروہ کا قول یہ ہے کہ یہ نصوصِ مطلقہ دوسری احادیث میں مقید ہو کر آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کفر کا اطلاق گناہوں پر ہوا ہے، جس طرح ریا پر شرک کا اطلاق ہوا ہے، اسی طرح شیطان کی طاعت کو معصیت، بلکہ اس کی عبادت کہا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَلَمْ اَعْھَدْ اِِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ﴾ [ یٰس: ۶۰] [اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا؟] نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا تھا:
Flag Counter