Maktaba Wahhabi

52 - 548
دوسرا عالم قائم کر دے، کیونکہ اس کے تو محض ارادے ہی سے ہر چیز معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ 2۔ شفاعتِ محبت: اس شفاعت کو یوں سمجھو کہ کسی بادشاہ نے کسی کی محبت کے سبب سے سفارش قبول کر لی اور یہ سمجھا کہ ایک بار غصہ پی جانا اور چور سے درگزر کر جانا اس رنج سے بہتر ہے جو اس سفارشی محبوب کے روٹھ جانے سے مجھے لاحق ہو گا۔ اس طرح کی شفاعت بھی اللہ کے دربار میں کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ جو شخص کسی کو اللہ کی جناب میں ایسا سفارشی سمجھے تو وہ بھی ویسا ہی جاہل اور مشرک ہے، جیسا کہ شفاعت کی پہلی قسم میں ذکر ہو چکا ہے۔ وہ مالک الملک چاہے اپنے بندوں پر بہت سی نوازشیں کرے اور کسی کو حبیب یا خلیل یا کلیم یا روح اللہ کا خطاب عطا فرمائے، پھر بھی مالک، مالک ہے اور غلام، غلام۔ ان میں سے کوئی بندگی کے رتبے سے اپنا قدم باہر رکھ سکتا ہے نہ غلامی کی حد سے تجاوز کر سکتا ہے۔ 3۔ شفاعت بالاذن: شفاعت کی یہ تیسری قسم خود مالک کے اذن و اجازت سے ہوتی ہے۔ اللہ کے ہاں اس قسم کی شفاعت ہو سکتی ہے اور قرآن و حدیث میں جس نبی اور ولی کی شفاعت کا ذکر آیا ہے، اس کے معنی یہی ہیں۔ غرض کہ جیسے اپنی ہر حاجت اللہ کو سونپنا اور سپرد کرنا چاہیے، اسی طرح بندہ یہ حاجت بھی اسی کے اختیار پر چھوڑ دے کہ وہ جسے چاہے ہمارا سفارشی بنا دے، نہ یہ کہ وہ کسی کی حمایت پر بھروسا کرے اور اسے اپنا حمایتی سمجھ کر اصل مالک کو بھول جائے اور اس کی شریعت کو بے قدر کر دے، کیونکہ سارے نبی اور ولی ایسے شخص سے بے زار ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کی ہر گز شفاعت نہیں کرتے، بلکہ وہ تو ناراض ہو کر الٹے ان لوگوں کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ان کی شان تو ’’الحب للّٰہ‘‘ [اللہ ہی کے لیے محبت] اور ’’البغض للّٰہ‘‘ [اللہ ہی کے لیے نفرت] ہے، چنانچہ جس کے حق میں اللہ تعالیٰ یوں ہی راضی ہوں گے کہ اسے دوزخ میں داخل کریں تو یہ انبیا و اولیا ایسے لوگوں کو مزید دو چار دھکے دینے کو تیار ہوں گے۔ کسی نبی اور ولی کو مختار کل ماننا غلط ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا: (( یَا غُلَامُ! إِنِّيْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ، اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ، اِحْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ
Flag Counter