Maktaba Wahhabi

198 - 548
اس کو احمد نے روایت کیا ہے۔ یعنی میرے رب نے مجھ کو تار اور نے کے باجوں کو مٹانے، بتوں اور صلیبوں کو توڑنے اور جاہلیت کے کاموں اور رسموں کے دفع کرنے کا حکم دیا ہے۔ تار کے باجے جیسے ستار، طنبورہ، سرود، سرنگی، چکارا، بین، رباب وغیرہ، اور نَے کے باجے جیسے بانسری، الغوزہ، شہنائی، سرنائی، قرنائی، ترئی وغیرہ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو حکم چلیپا اور امورِ جاہلیت اور بتوں کا ہے حرمت اور فنا کرنے میں وہی حکم ان باجوں کا ہے۔ یہ دو لفظ ایک ’’معازف‘‘ دوسرا ’’مز امیر‘‘ جملہ انواعِ ساز و سرود کو شامل ہیں، کوئی باجا ان سے باہر نہیں رہتا ہے، جیسے نوبت، نقارے، تاشے، مرفی، دائرہ، ربانہ، مجیرے، جھانجھیں، سارنگی، طبلہ، بین، باجا، ارگن، مہچنگ۔ بعض پیر زادے راگ سننا عبادت جانتے ہیں۔ وہ ذوق و شوق سے یہ کام کرتے ہیں اور شیطان ان کے اندر وسوسے ڈالتا ہے۔ یہ نادان اس کو نورِ الٰہی تصور کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! شیطانی کام میں شوق و ذوقِ الٰہی کا کیا ذکر؟ چیل کے گھونسلے میں گوشت کی دہڑوڑ! اگر انوارِ الٰہی ہوتی تو نماز وتلاوتِ قرآن اور سماعتِ حدیث میں طاری ہوتی نہ کہ ان خرافات و ممنوعاتِ محرمات میں۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ دوسری رسم: نسب پر فخر کرنا ہے، خصوصاً شیخ، سید، مغل، پٹھان، علی الخصوص پیر زادے مولوی، حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سارے سید، شیخ، مغل، پٹھان، جولاہے، ترکاری بیچنے والے، قسائی، موچی، تنبولی، چوڑے، چمار، دولت مند، مفلس، نیک، بد، کافر، مسلمان؛ سب لوگ ایک ماں باپ آدم وحواعلیہما السلام کی اولاد ہیں۔ کوئی نیک ہوا کوئی بد، پھر ہر کسی نے ایک پیشہ اختیار کر لیا، چنانچہ خود آدم علیہ السلام کپڑا بُنتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ادریس علیہ السلام کپڑا سیتے اور نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ ابراہیم ولوط علیہم السلام کھیتی باڑی کرتے۔ صالح و ہود علیہم السلام تجارت کرتے۔ حضرت داود علیہ السلام لوہاری کرتے اور زرہ بناتے۔ سلیمان علیہ السلام پنکھے بُنتے اور بوریا ٹوکرا بناتے۔ شعیب علیہ السلام بکریاں اور بھیڑیں پالتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بزازی کرتے، عمر رضی اللہ عنہ خشت پزی کرتے، اسی طرح سب لوگ گزران کے واسطے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کر لیتے تھے۔ جب آدم علیہ السلام کی اولاد ملک ملک پھیلی تو ہر کنبے کے لوگ اپنے بزرگ کے نام سے مشہور ہوئے، پھر وہی ان کی ذات ٹھہر گئی۔
Flag Counter