Maktaba Wahhabi

342 - 548
شرک فلاسفہ کے اسی طویل شرک کا خلاصہ ہے، اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قدریہ کو مجوس کے مشابہ کہا ہے۔ یہ دونوں شرک اکثر لوگوں میں جمع ہو جاتے ہیں اور کبھی ایک ہی طرح کا شرک ہوتا ہے۔ قرآن کریم بلکہ ساری آسمانی کتابوں میں اس شرک کی تردید کی صراحت آئی ہے۔ سورۃ الفاتحہ کی آیت ﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ﴾ [ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں] میں شرکِ محبت والوہیت کی نفی ہے اور ﴿ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ [ہم صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں] میں شرکِ خلق وربوبیت کی نفی ہے۔[1] توحید کے چار مراتب کا بیان: بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ توحید کے چار مرتبے ہیں: 1۔ایک یہ کہ وجوبِ وجود کو اللہ میں منحصر کریں، اللہ کے سوا کسی کو و اجب الوجود نہ جانیں۔ (اللہ کو واجب الوجود اور اس کے سوا ہر چیز کو ممکن الوجود کہا جاتا ہے۔ واجب الوجود اس ہستی کو کہتے ہیں جس کا وجود خود اسی سے ہو اور وہ اپنے وجود میں غیر کا محتا ج نہ ہو) 2۔دوسرے یہ کہ آسمان و زمین اور سارے جوہروں (جوہر اس کو کہتے ہیں جو بذات خود قائم ہو) کی تخلیق و پیدایش اللہ کے لیے محدود کریں۔ ان دونوں مراتبِ توحید سے متعلق کتبِ الٰہیہ میں کوئی بحث نہیں ہے۔ اس میں عرب کے مشرکین اور اہلِ کتاب میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے، بلکہ قرآن کریم اس پر نص صریح ہے کہ یہ بات سب کے نزدیک ثابت اور تسلیم شدہ ہے۔ 3۔تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان ساری چیزوں کی تدبیر وانتظام کو اللہ کی ذات میں منحصر کریں، یعنی اللہ کے سوا کسی کو مدبر ومنتظم نہ جانیں۔ 4۔چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے۔ انھیں آخری دو مراتب میں سارا جھگڑا چل رہا ہے۔ قرآن پاک میں انھیں دو مرتبوں سے بحث کی گئی ہے۔ قرآنِ مجید کے علوم خمسہ: ’’قرآن مجید کے معانی پانچ علوم سے خارج نہیں ہوتے: 1۔ایک علم مخاصمہ (مخالف کی دلیل کو اسی پر الٹا کر اسے زیر کرنا) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار گمراہ قوموں: یہود و نصاریٰ اور مشرکین و منافقین پر رد کیا ہے۔ علم مخاصمہ کے عَلم
Flag Counter