Maktaba Wahhabi

536 - 548
کو کچھ نفع نہ پہنچا سکے تو پھر وہ کون ولی، پیر اور مرشد ہیں جو قبر پرستوں کو نفع پہنچا سکیں گے اور ان کی شفاعت کرکے عذابِ الٰہی سے نجات دلائیں گے؟ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلائق اور اقرب الی اللہ ہیں۔ اللہ کے نزدیک آپ کا مرتبہ بہت عظیم ہے۔ آپ کو ابو طالب کی حیات میں اور موت کے وقت ان کی ہدایت واسلام کی بڑی حرص تھی، لیکن یہ بات آپ کو میسر آئی نہ آپ کو اس کی قدرت حاصل ہوئی، پھر جب ان کی موت کے بعد ان کے لیے استغفار کرنا چاہا تو اللہ کی طرف سے منع کر دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول بھی کسی کے نفع وضرر اور عطا ومنع کے مالک نہیں ہیں۔ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس کو چاہے ہدایت کرے اور جس کو چاہے گمراہ کرے، وہ جسے چاہے ثواب دے اور جسے چاہے عذاب کرے۔ جس کو چاہے نفع بخشے اور جس کو چاہے نقصان پہنچائے۔ قرآن مجید کی آیاتِ صریحہ اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ اللہ کے خزائن ان کے ہاتھ میں ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ﴾ [الأنعام: ۵۰] [اے پیغمبرکہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں] ان آیات واحادیث کی سماعت کے بعد کس طرح کسی مومن کے دل میں یہ بات آسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب، نفع و ضرر کے مالک اور کارخانۂ الٰہی کے مختار ہیں؟ اللہ تعالیٰ ایسے دشمنانِ اسلام اور عاشقانِ شرک کو ہلاک کرے جو مدح نبوی میں حد سے آگے بڑھ گئے ہیں اور بے حد غلو کرتے ہیں۔ کسی کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کی اجازت دے گا یا نہیں۔ ’’تقویۃ الإیمان‘‘ سے مسئلہ شفاعت کا بیان: ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں مسئلہ شفاعت کی بابت جو تقریر مرقوم ہے، وہ نہایت سادہ اور دل نشیں ہے، جسے ہم ذیل میں ذکر کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ حَتّٰی ۔ٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالُوْا
Flag Counter