Maktaba Wahhabi

514 - 548
[اے لوگوں کے رب اس بیماری کو دور کردے اور شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، شفا صرف تیری ہی شفا ہے، ایسی شفا دے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیثِ مذکور میں ’’رقی‘‘ سے مراد وہ منتر ہے جو مریض پر پڑھ کر پھونکا جاتا ہے، انھوں نے اس کو شرک فرمایا ہے، لیکن دوسری دلیل شرعی سے وہ دم مستثنا ہیں جن میں کسی طرح کے شرک کا شائبہ نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رخصت و اجازت دی ہے۔ امام خطابی نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا اور آپ پر دم کیا گیا، آپ نے اس کا حکم بھی دیا اور جائز بھی رکھا۔ [1] اس سے معلوم ہوا کہ دم جب قرآن یا اسمِ الٰہی سے ہو تو جائز ہے۔ مکروہ اور ناجائز وہ دم ہے جو عربی زبان میں نہ ہو، کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اس میں کفر یا شرک کی کوئی بات ہو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہر مجہول اسم سے دم نہیں کرنا چاہیے، اس کے ساتھ دعا کرنا تو دور کی بات ہے، اگرچہ اس کا معنی معلوم ہو، کیونکہ غیر عربی زبان میں دعا کرنا مکروہ ہے۔ ایسی دعا اس کے لیے جائز ہے جسے عربی زبان بہ خوبی نہیں آتی۔ رہے عجمی الفاظ کو شعار بنانا تو اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[2] اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ جمعہ، عیدین، نکاح، استسقا اور کسوف و خسوف وغیرہ کا خطبہ بھی عجمی زبان میں نہ پڑھا جائے، بلکہ عربی عبارت کا خطبہ پڑھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اسلام عجم میں آیا ہے، تب سے اب تک خطبہ ہمیشہ عربی ہی میں رہا، کسی ملک میں عجمی زبان میں نہیں پڑھا گیا۔ مشروع دم کی شرطیں: امام سیوطی نے لکھا ہے کہ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ دم کرنا تب جائز ہے جب اس میں تین شرطیں موجود ہوں۔ ایک یہ کہ دم اللہ کے کلام یا اسما و صفات سے ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی زبان میں ہو اور دم کرنے والا اس کے معنی سمجھتا ہو۔ تیسرے یہ کہ دم کے بارے میں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اس میں بذات خود شفا کی قدرت نہیں ہے، بلکہ اللہ کی تقدیر سے ہے۔[3] تمیمہ وہ چیز ہے جسے نظر بد کے لیے لٹکاتے ہیں، چاہے ہڈیاں ہوں یا منکا یا کسی چیز کا دانہ۔
Flag Counter