Maktaba Wahhabi

538 - 548
پہلی صورت: جیسے کسی بادشاہ کے یہاں کسی شخص کی چوری ثابت ہو جائے اور کوئی امیر و وزیر اس کو اپنی سفارش سے بچالے تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ بادشاہ کا جی تو اس چور کر پکڑنے ہی کی خواہش کرتا ہے اور اس کے قانون کے موافق وہ چور سزا کا مستحق ہے، مگر اس امیر سے دب کر اس کی سفارش مان لیتا ہے اور اس چور کی تقصیر معاف کر دیتا ہے، کیونکہ وہ امیر اس کی سلطنت کا اہم رکن ہے اور اس کی بادشاہت کو بڑی رونق دے رہا ہے۔ اس موقع پر بادشاہ یہ مناسب سمجھتا ہے کہ اس وقت اپنے غصے کو ضبط کر لینا اور ایک چور سے در گزر کر جانا، اس سے بہتر ہے کہ اتنے بڑے امیر کو نا خوش کیا جائے، جس سے بڑے بڑے کام خراب ہو جائیں اور سلطنت کی رونق کم ہو جائے۔ اس کو ’’شفاعتِ و جاہت‘‘ کہتے ہیں، یعنی اس امیر کی وجاہت ومرتبت کے سبب سے اس کی سفارش قبول کی گئی ہے۔ اس قسم کی سفارش اللہ کی جناب میں ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی، لہٰذا جو کوئی کسی نبی، ولی، امام، شہید یا کسی فرشتے یا کسی پیر کو اللہ کی جناب میں اس قسم کا شفیع سمجھے، وہ اصل مشرک اور بڑا جاہل ہے کہ اس نے اللہ کا معنی نہ سمجھا اور اس مالک الملک وحدہ لا شریک لہ کی قدر نہیں پہچانی۔ اس شہنشاہ کی شان تو یہ ہے کہ ایک آن میں ایک حکم ’’کُنْ‘‘ سے چاہے تو کروڑوں نبی، ولی، جن اور فرشتے پیدا کر ڈالے اور ایک دَم میں سارا عالم عرش سے فرش تک الٹ پلٹ کر ڈالے اور ایک دوسرا عالم اس جگہ قائم کردے، کیونکہ اس کے محض ارادے سے ہر چیز ہو جاتی ہے۔ کسی کام کے لیے اس کو اسباب وسامان جمع کرنے کی حاجت نہیں ہوتی۔ اگر بالفرض سب اگلے پچھلے جن وانس مل کر جبرئیل علیہ السلام اور افضل الانبیاء علیہم السلام جیسے ہو جائیں تو اس مالک الملک کی سلطنت میں ان کے سبب سے کوئی رونق نہیں بڑھ جائے گی اور اگر سب لوگ شیطان اور دجال کی طرح ہو جائیں تو اس کی رونق میں کچھ کمی نہیں آئے گی۔ وہ ہر صورت میں سب بڑوں کا بڑا اور تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس کا کوئی کچھ بگاڑ سکے گا نہ کچھ سنوار سکے گا۔ دوسری صورت: اس چور کے بارے میں دوسری صورت یہ ہے کہ بادشاہ کا کوئی شہزادہ یا کوئی بیگم یا بادشاہ کا کوئی معشوق اس چور کا سفارشی ہو کر کھڑا ہو جائے اور چوری کی سزا نہ دینے دے، تو بادشاہ اس کی
Flag Counter